کیسے بنا شری پدمنابھ سوامی مندر



Daily Pratap, India's Oldest Urdu Daily
Published On 10th July 2011
انل نریندر
سپریم کورٹ نے سات رکنی کمیٹی کو ترواننت پورم میں واقع شری پدمنابھ سوامی مندر کے تہہ خانوں کو کھولنے پر پابندی لگادی ہے۔ جسٹس آر وی روندرن اور جسٹس اے کے پٹنائک کی ڈویژن بنچ نے عرضی گذار شراون کوٹ کے راجہ رہے ،راجہ مارتنڈ ورما اور کیرل حکومت سے کہا ہے کہ وہ قدیم مندر کے تقدس اور سکیورٹی کو یقینی بنانے کے مناسب تجاویز کے ساتھ عدالت آئیں۔ اور راجہ مارتنڈ ورما کے وکیل نے جرہ کے دوران کہا کہ مندر پبلک پراپرٹی ہے اور راج پریوار کے کسی بھی فرد نے بیشمار دولت یا پراپرٹی پر کسی کے حق کا دعوی نہیں کیا ہے اور اس کا کوئی بھی حصہ خاندان کے کسی فرد سے وابستہ نہیں ہے۔ پراپرٹی بھگوان پدمنابھ سوامی کی ہے۔ مندر کی پراپرٹی کے بارے میں مورخوں کا کہنا ہے کہ اس خزانے کی تاریخی اہمیت کو دیکھتے ہوئے تو اس کی قیمت لگانا مشکل ہوگا پھر بھی کہا جارہا ہے کہ اس کی بازار مالیت 1 لاکھ کروڑ سے 10 گنا زیادہ ہوگی۔
پدمنابھ سوامی مندر شراون کوٹ شاہی فیملی نے بنوایا تھا۔ بھگوان وشنو کا یہ مندر کیرل کے قلعے کے اندر ہی بنا ہوا ہے۔ اس مندر کو 108 دویہ دشمے میں سے ایک مانا جاتا ہے۔ دویہ دیشم یعنی وشنو جی کا گھر۔ یہاں بھگوان وشنو کی سوتی ہوئی مورتی ہے۔ شراون کوٹ کے راجہ اپنے آپ کو وشنو کا بھگت کو سیوک مانتے ہیں۔ مندر کے بننے کی کئی کہانیاں ہیں۔ اس میں سے ایک جو سب سے زیادہ مشہور ہے وہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ دیواکر منی نے بھگوان کرشن کی تپسیا کی تھی اور انہیں درشن دینے کو کہا۔ بھگوان ایک شرارتی بچے کی شکل میں انہیں درشن دینے آئے اور پوجا کے لئے رکھے شیو لنک کو نگل گئے۔ منی نے غصے میں اس بچے کا پیچھا کیا لیکن وہ جاکر ایک بڑے پیڑ کے پیچھے چھپ گیا۔ اچانک وہ پیڑ گرگیا اور بھگوان وشنو کی مورتی میں بدل گیا۔ منی سمجھ گئے کہ وہ بھگوان وشنو کا ہی اوتار تھا۔ منی نے بھگوان سے کہا یہ مورتی بہت لمبی ہے اسے تھوڑا چھوٹا کریں تاکہ میں اور دوسرے بھگت ایک بار میں اس کے درشن کرسکیں۔ اتنا کہتے ہی وہ مورتی چھوٹی ہوگئی لیکن پھر بھی اس کا قد کافی بڑا رہا۔ آج بھی اس مورتی کو تین گیٹ والے مندر میں رکھا گیا ہے۔ اس کے دروازے سے وشنو جی کا سر دکھائی دیتا ہے۔ اسے شیو جی کی طرح پوجا جاتا ہے ، دوسرے دروازے سے پیٹھ دکھائی دیتیہے ، جس کی نابھ میں کمل کا پھول نکل رہا ہے اسے بھرما کا سوروپ کہتے ہیں اور تیسرے دروازے سے بھگوان وشنو کے پیر دکھائی دیتے ہیں ، جسے موکش کا دوار مانا جاتا ہے۔ کیرل کا یہ مندر کھجوراہوں کے مندروں جیسی فنکاریوں اور مورتی سے بھرا ہے۔ اسی وجہ سے ترواننت پورم کا نام ملا۔ ترواننت پورم یعنی بھگوان کا پوتر گھر۔
کیرل کے شری پدمنابھ سوامی مندر سے سونے کی اب تک کی سب سے بڑی برآمدگی ہوئی ہے۔ ایک لاکھ کروڑ سے زیادہ خزانے کی اس برآمدگی نے ایک بحث چھیڑ دی ہے کہ پوجا استھلوں پرایشور کو کیا حقیقت میں گولڈ کی ضرورت ہے؟ لوگ پیلی چمکدار دھات کی پوجا کررہے ہیں یا پھر اپنے بھگوان کی۔ اب یہ مندر دنیا کا سب سے امیردھارمک استھل بن گیا ہے۔ویٹیکن کے بعد شاید پچھلے ہفتے سے اس بحث نے بھی زور پکڑا ہے کہ آخر یہ سونا کس کا ہے؟ بھگوان کا ہے یا پھر کیرل کے عوام کا؟
Tags: Anil Narendra, Daily Pratap, Kerala, Kerala High Court, Raja Martande Verma, Shri Padmanabh Swami Temple, Supreme Court, Treasure, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟