سرکار سپریم کورٹ کو گمراہ کرنے میں ناکام، بابا رام دیو کی جیت


Daily Pratap, India's Oldest Urdu Daily
Published On 14th July 2011
انل نریندر
اگرمرکزی وزارت داخلہ ، مرکزی وزیر شری کپل سبل اور دہلی پولیس نے یہ سمجھا تھا کہ رام لیلا میدان میں آدھی رات کو سوئے لوگوں پر کی گئی لاٹھی چارج وغیرہ کو سپریم کورٹ کے ججوں سے چھپا لیں گے تو بہت بڑی غلط فہمی میں تھے۔ بابا رام دیو اور ان کے حمایتیوں سے اس رات پولیس نے کیا برتاؤ کیا اس کے بارے میں بصداحترام جج صاحبان کو پہلے ہی معلوم تھا۔ بصد احترام جسٹس ڈاکٹر بلبیر سنگھ چوہان و جسٹس سوتنتر کمار پہلے ہی سے تیار آئے تھے۔ انہوں نے اپنا ہوم ورک اچھے سے کر رکھا تھا۔ ان کے تلخ سوال اس بات کی گواہی دیتے ہیں ۔ بدعنوانی اور کالی کمائی کے مسئلے پر ستیہ گرہ کرنے پر رام لیلا میدان سے طاقت کے زور پر بے دخل کردہ بابا رام دیو نے رات کے اندھیرے میں ہوئی کارروائی کا ٹھیکرا سپریم کورٹ میں وزیر داخلہ پی چدمبرم کے سر پھوڑنے کی کوشش کی تھی ، وہیں اس کارروائی میں دہلی پولیس کے جواب سے ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے جج صاحبان نے نیا حلف نامہ داخل کرنے کو کہا۔ دونوں ججوں نے پیر کو دہلی پولیس سے کچھ چبھتے ہوئے سوال پوچھے۔ جج ایک سے تین جون کے درمیان کے واقعات کے ساتھ ہی ان حالات کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں جن کی وجہ سے پولیس نے دیر رات بربریت اور ان کے حمایتیوں کو طاقت کے زور پر باہر کرنا پڑا۔ خیال رہے کہ سپریم کورٹ نے رام لیلا میدان میں ستیہ گرہ کررہے بابا رام دیو اور ان کے حمایتیوں پر 4 جون کی رات میں پولیس کی بربریت آمیز کارروائی پر از خود نوٹس لیتے ہوئے اس معاملے میں 6 جون کو منموہن سنگھ سرکار اور دہلی کی شیلا سرکار کے اعلی افسروں سے جواب طلب کیا تھا۔ عدالت نے دہلی پولیس کمشنر بی کے گپتا سے بھی شخصی طور سے جواب طلب کیا ہے۔ اس سے پہلے بابا رام دیو کی جانب سے ان کے وکیل رام جیٹھ ملانی نے وزیر داخلہ پی چدمبرم کو نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ رام لیلا میدان میں نہتے ستیہ گرہیوں کے خلاف طاقت کا استعمال کی جڑ ہیں۔ انہوں نے دعوی کیا کیونکہ بابا رام دیو کو دہلی سے بے دخل کرنے کا کوئی حکم نہیں تھا۔ اس لئے عدالت کو وزیر داخلہ سے شخصی طور سے جواب طلب کرکے پتہ لگانا چاہئے کہ اس بارے میں کب اور کن حالات میں فیصلہ لیا گیا تھا۔ جیٹھ ملانی نے الزام لگایا کہ پرامن طریقے سے ستیہ گرہ کررہے اشخاص نے ان ذیاتیوں کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کی کوشش کی لیکن پولیس نے ایسا کرنے سے منع کردیا۔
دونوں جج جسٹس بی ایس چوہان اور جسٹس سوتنتر کمار پوری تیاری سے آئے تھے۔ انہوں نے کیس کے سارے پہلوؤں پر گہرائی سے مطالع کیا ہوا تھا اور بصد احترام ججوں نے دہلی پولیس سے سوال کیا کہ حکام کے ذریعے کی گئی ذیاتیوں کے خلاف یوگ گورو کے حمایتیو ں کی شرکت پر پولیس نے ایف آئی آر درج کیوں نہیں کی؟ عدالت عظمی نے کہا کہ پچھلے حلف نامے میں یہ صاف نہیں ہوپایا کہ یکم جون سے 3 جون کے درمیان کیا ہوا؟ اس نے کہا ڈی وی ڈی ، تصاویر اور دستاویزوں سے صاف طور سے پتہ چلتا ہے کہ اس جگہ پر یوگا کی پریکٹس کرائی جارہا تھی۔ عدالت نے حکام سے اس رات کی صفائی دینے کو کہا۔ کن حالات کے تحت انہیں رام دیو کا یہ پروگرام روکنا پڑا تھا۔ ڈویژن بنچ نے اس بات پر بھی سوال اٹھائے کہ پولیس نے تمبوؤں سے گھیرے گئے اس مقام سے لوگوں کو باہر نکالنے کیلئے آنسو گیس کے گولوں اور پانی کی دھار کا استعمال کیا ۔ سپریم کورٹ نے کہا یہ امید نہیں کی جاتی کہ کسی بھی گھیرے گئے حصے میں آنسو گیس اور پانی کی دھار کا استعمال کیا جائے۔ کیا ایسا نہیں تھا کہ رات ساڑھے گیارہ بجے جب لوگ سوئے ہوئے تھے تو آپ نے لاٹھیاں برسائیں؟ تصاویر سے پتہ چلتا ہے کہ پولیس کمشنر کسی سے بات چیت کررہے تھے۔
سپریم کورٹ نے پیر کو 4 جون کی پولیس کارروائی کوتار تار کر سرکار کو بے نقاب کردیا۔ پولیس کا جھوٹا حلف نامہ عدالت کو گمراہ نہیں کرسکا۔ پولیس اپنے اس دعوے کو ثابت نہیں کرسکی کہ اس نے آنس گیس اس لئے چھوڑی کیونکہ بابا رام دیو کے حمایتی تشدد پر آمادہ ہوگئے تھے اور انہوں نے پولیس پر پتھراؤ کیا۔ بنچ نے معاملے کی اگلی سماعت کے لئے 25 جولائی کی تاریخ مقرر کی ہے۔ بابا رام دیو کو چاہئے کہ وہ دہلی پولیس کو راج بالا کی حالت کے بارے میں سپریم کورٹ میں آواز اٹھائیں۔ راج بالا زندگی اور موت کے درمیان جھول رہی ہے۔ بابا کو چاہئے وہ اگلی سماعت میں خواتین حمایتیوں سے آبروریزی کی کوشش کا بھی ذکر کریں جیسا کہ انہوں نے الزام لگایا ہے۔ ہم بصد احترام ججوں کا شکریہ ادا کرنا چاہتے ہیں کہ وہ کسی بھی طرح کے دباؤ میں نہیں آئے اور انہوں نے اس کالی رات کے معاملے میں دودھ کا دودھ پانی کا پانی کردیا ہے۔
Tags: Anil Narendra, Baba Ram Dev, Corruption, Daily Pratap, delhi Police, Kapil Sibal, P. Chidambaram, Ram Lila Maidan, Supreme Court, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟