بحث دو گھنٹے چلی ،مگر سوالوں کا جواب نہیں ملا!
پارلیمنٹ میں آپریشن سندور پر کئی گھنٹے بحث ہوئی بحث میں نہ صرف ہیلدی اور پائیدار اور اچھی رہی بلکہ اس نے حکمراں فریق اور اپوزیشن دونوں کو ان کے بہتر رنگ میں دیش کے سامنے رکھا ۔خاص کر وزیراعظم نریندر مودی نے بھارت پاک لڑائی کے دوران سیز فائر کو لے کر ثالثی والے دعووں کو سرے سے مسترد کر دیا ۔پی ایم مودی نے کہا کہ بھارت نے کسی تیسرے فریق کی ثالثی قبول نہیں کی اور نہ ہی کرے گا ۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ حالانکہ تیس مرتبہ سے زیادہ دہرا چکے ہیں کہ انہوں نے جنگ بندی کرائی ۔پی ایم نے ٹرمپ کا نام لئے بغیر ان دعووں کو بے بنیاد بتایا ۔ان کی تقریر میں بہت سارے سوالوں کے جواب تو ملے لیکن بہت سے نہیں ملے ۔سرکار نے اس کا تسلی بخش جواب نہیں دیا کہ سیز فائر کو کیوں روکا گیا ؟ سوال ہے کہ جب پاکستان گھٹنوں کے بل کھڑا تھا تب سیز فائر کن شرائط اور کس کے کہنے پر روکی کی گئی ؟ دیش تو چاہتا تھا کہ جب بھارت کا پلڑا بھاری تھا تو ہمیں رکنانہیں چاہیے تھا اور پی او کے پر قبضہ کر لینا چاہیے تھا لیکن ہم اچانک رک گئے یہی نہیں ہم نے پاکستان کو یہ بھی بتادیا کہ ہمارے صرف آتنکی ٹھکانوں پر حملہ کیا ہے ۔ہم نے پاکستانی فوج اور ڈیفنس سسٹم پر حملہ نہیں کیا اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہماری ہی زمین پر ہمارے ہی جہاز گرانے میں پاکستان کامیاب رہا ۔راجیہ سبھا میں اپوزیشن اور کانگریس صدر نے پہلگام حملے میں سیکورٹی کوتاہی کا سوال اٹھایاجاس کاکوئی تسلی بخش جواب نہیں ملا ۔کھڑگے نے جموں وکشمیر کے ایل جی منوج سنہا کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے سرکار پر تنقید کی ۔منوج سنہانے اعتراف کیا کہ آتنکی حملے کی وجہ ہماری کوتاہی تھی ۔انہوں نے سوال کیا کہ کیا سنہا کا بیان کسی کو بچانے کے لئے تھا ۔حملے کی کس نے ذمہ داری لی ؟ کس نے استعفیٰ دیا ۔کانگریس ایم پی پرینکا گاندھی نے کہا پہلگام حملے کے بعد کسی دیش نے پاکستان کی مذمت نہیں کی یعنی پوری دنیا میں بھارت کو پاکستان کی برابری پر رکھا ۔سرکار نے جواب میں کہا کہ پاکستان کے ساتھ صرف تین دیش کھڑے تھے ۔دنیا کے کئی دیشوں نے آتنکی حملوں کی مذمت کی ۔بیشک لیکن کسی نے بھی پاکستان کو پہلگام حملے کا قصوروار نہیں مانا ۔کیا یہ ہماری خارجہ پالیسی کا پردہ فاش نہیں کرتی ؟ ساری دنیا جانتی ہے کہ بھارت پاک لڑائی میں پاکستان تو محض ایک مکھوٹہ تھا اصل طاقت تو چین کی تھی ۔ہم پاکستان سے اکیلے نہیں لڑرہے تھے ہم پاک چین گٹھ جوڑ سے لڑرہے تھے ؟ تمام بحث میں سرکار نے ایک بار بھی چین کا نام نہیں لیا ۔جبکہ ہماری فوج نے صاف کہا کہ زمین پاکستان کو 810 فیصد ہتھیار دے رہا ہے اور چین کی فوجی ساز وسامان کے سبب بھی بھارت کے جہاز گرے ۔اس پر سرکار نے ایک لفظ بھی نہیں بولا اور نہ ہی ایک لفظ چین کے ذریعے پاکستان کو دی جارہی مدد پر نہیں کہا امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اسی مہینے دعویٰ کیا تھا کہ بھارت پاک لڑائی کے دوران پاک جنگی جہاز مارگرائے گئے تھے حالانکہ ٹرمپ نے یہ صاف نہیں کیا کہ کس دیش کے کتنے جہاز گرائے گئے ؟ اس سے پہلے پاکستان بھی بھارت کے پانچ جنگی جہاز مار گرانے کا دعویٰ کر چکا ہے ۔حالانکہ بھارت نے ہمیشہ اسے مسترد کیا ہے ۔بھارت کے مقابلے میں پاکستان کے ساتھ زیادہ دیش کیوں ہیں؟ بھارت پاک لڑائی کے دوران ترکی ،آذر بائیجان اور چین نے کھل کر پاکستان کی حمایت کی جبکہ بھارت کے حق میں صرف اسرائیل ہی کھلے طور سے نظر آیا ۔یہاں تک کہ روس نے بھی بھارت کی کھل کر حمایت نہیں کی ۔اس مسئلے پر بولتے ہوئے وزیراعظم نریندر مودی نے کہا کہ دنیا میں کسی بھی دیش میں بھار ت کو اپنی حفاظت میں کاروائی کرنے سے نہیں روکا ہے ۔اقوام متحدہ میں 193 دیش ہیں اور صر ف تین دیشوں نے ہی آپریشن سندورکے دوران پاکستان کی حمایت میں بیان دیا تھا ۔برکس ،فرانس ،روس اور جرمنی کو ئی بھی دیش کا نام لے لیجئے دنیا بھر سے بھارت کو حمایت ملی پوری بحث میں ایک اہم ترین اشو کپل سبل نے بھی اٹھایا ۔سابق مرکزی وزیر کپل سبل نے دیش کی ڈیفنس تیاریوں پر سوال کھڑے کئے اور کہا کہ بھارت کے پاس پاکستان سے جنگ لڑنے اور اسے برباد کرنے کے لئے درکار وسائل نہیں ہیں ۔جب ہم پاک سے جنگ کی بات کرتے ہیں تو چین کو بھی جوڑیں کیوں کہ دونوں الگ الگ نہیںہیں ۔پاکستان کے پاس چین کے جدید ترین جنگی جہاز اور فوجی سسٹم ہے ۔جبکہ بھارت کا رافیل آدھی صلاحیت والا جہاز ہے ۔پاک کے پاس 27 اسکوائیڈرن جہاز ہیں جبکہ چین کے پاس 138 اسکوائیڈرن ہیں وہیں ہندوستانی ایئر فورس کے کل 32 اسکوائیڈرن ہیں جو کسی بھی بھارت پاک جنگ کے دوران سب سے کم تعداد ہے۔حال ہی میں ایئر فورس چیف اور دیگر سینئر ملیٹری حکام نے اس کمی کو اجاگر کیا ہے ۔پچھلے گیارہ سالوں سے فوجی تیاری میں بھاری کمی آئی ہے ۔اس سے انکار نہیں کیاجاسکتا اور نا ہی اس بحث میں اس کا کوئی جواب ملا۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں