وراثت بچانے اور گڑھ بھیدنے کی لڑائی!

رائے بریلی کے چناوی دنگل میں راہل گاندھی کی اینٹری ہوتے ہی یہاں کا چناوی ماحول گرم ہو گیا ہے ۔کہا جا رہا ہے کہ راہل نے امیٹھی سے چناو¿ نہ لڑ کر رائے بریلی کو چنا اسے ایک طرح سے ترپ کا اکّا رہا ۔بھاجپا نے امیٹھی سے راہل کو گھیرنے کی پوری تیاری کر دی تھی آخری لمحہ میں یہ فیصلہ کہ راہل رائے بریلی سے لڑیں گے اور پنڈت کشوری لال امیٹھی سے لڑیں گے نے نہ صرف بھاجپا کو بیک فٹ پر لا دیا ہے بلکہ خود کانگریسیوں کو حیرت میں ڈال دیا ہے ۔اور چنندہ وی آئی پی سیٹوں میں شمار رائے بریلی گاندھی خاندان کا گڑھ رہا ہے اس بار راہل سے مقابلہ کرنے کیلئے بھاجپا نے یوگی سرکار کے وزیر دنیش پرتاپ سنگھ کو میدان میں اتارا ہے وہیں بسپا نے ٹھاکر پرساد یادو کو چناوی میدان میں اتارا ہے ۔اس چناو¿ میں رائے بریلی کی لڑائی کئی معنوں میں خاص ہے ۔یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ راہل اپنے خاندان کی وراثت بچانے کے ساتھ ہی والدہ سونیا گاندھی سے بڑی جیت کانگریس کو دلا پاتے ہیں یا نہیں ۔سپا کے ساتھ میں اس لڑائی کو اور دلچسپ بنا دیا ہے ۔دوسری طرف بھاجپا کے سامنے کانگریس کے اس مضبوط قلعے کو مسمار کرنے کی چنوتی ہے ۔وہیں بسپا کی کوشش کرے گی کہ وہ رائے بریلی کی جنگ کو تکونے مقابلے میں بدل دے ۔گاندھی خاندان کی یہ تیسری پیڑی ہے جو رائے بریلی سے چناو¿ میدان میںاتری ہے ۔پہلا چناو¿ راہل گاندھی ے دادا فیروز گاندھی نے لڑا تھا اس کے بعد اندرا گاندھی اور سونیا گاندھی یہاں سے چناو¿ لڑ چکی ہیں ۔رائے بریلی سے گاندھی خاندان کی انحصاری لگی آرہی ہے ۔یہی وجہ رہی کہ کانگریس کا اس سیٹ پر دبدبہ رہا حالانکہ اس سیٹ پر تین بار غیر کانگریسی ایم بھی چنے گئے ہیں ۔1977 میں راج نارائن اور 1996 اور 1998 میں بھاجپا کے اشوک سنگھ چناو¿ جیتے تھے ۔باقی سبھی چناو¿ نتایج کانگریس کے حق میں گئے ۔سونیا گاندھی 2004 سے یہاں مسلسل ایم پی رہیں ۔لیکن ووٹ فیصد ہر بار کم ہوتا رہا ہے ۔کانگریس کو 2009 میں 72.3 فیصد 2014 میں 63.8 اور 2019 میں 55.8 فیصد ووٹ ملے ۔اب راہل گاندھی کے سامنے اپنا ووٹ فیصد بڑھانے کی چنوتی ہوگی ۔رائے بریلی کی سیٹ پر کانگریس کو سپا کا ساتھ ملا ہے ۔رائے بریلی لوک سبھا حلقہ میں پانچ اسمبلی حلقہ آتے ہیں ۔2022 میں ان میں سے 4 سیٹوں پر سپا کامیاب رہی تھی ۔یہاں او بی سی ووٹر قریب 23 فیصد ہیں ۔اور 9 فیصد یادو ووٹر ہیں یہ حساب کانگریس کی راہ پر آسان کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے ۔چناو¿ میں سپا تنظیم بھی کانگریس کے ساتھ کاندھے سے کاندھا ملا کر چل رہی ہے ۔بسپا کی دلت اور یادو ووٹروں پر نظر ہے ۔اس سیٹ پر دلت ووٹر قریب 32 فیصد ہیں ۔بسپا نے اپنا روایتی ووٹر مانتی ہے ۔بسپا نے 2014 کے چناو¿ میں اپنا امیدوار اتارا تھا اس وقت کے امیدوار 63633 ووٹ لیکر پانچویں نمبر پر تھا اب بسپا امیدوار اس برادری میں سیندھ لگانے کی کوشش میں ہیں ۔اس بار سیٹ کی تاریخ دلچسپ ہے ۔یہاں بڑے بڑے سورما ہار گئے ہیں خود اندرا گاندھی بھی 1977 میں چناو¿ ہاری تھیں اس کے علاوہ بھیم راو¿ امبیڈکر کی بیوی سویتا امبیڈکر ،وجے راجے سندھیا ،جنیشور مشرا ،ونے کٹیار یہاں سے چناو¿ ہار چکے ہیں ۔تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ اہل کی جیت تقریباً پکی ہے ۔دیکھنا صرف یہ ہوگا کہ وہ کتنے ووٹوں سے کامیاب ہوتے ہیں اور ووٹ فیصد کتنا بڑھا سکتے ہیں ۔رائے بریلی کا سیدھا اثر آس پاس کی سیٹوں پر بھی پڑ سکتا ہے ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟