عراق اور شام پر امریکی حملے !

امریکہ اور برطانیہ نے یمن میں 13 جگہوں پر حوثی باغیوں کے 36 ٹھکانوں پر مشترکہ حملے کئے ہیں ۔امریکہ کی جانب سے جمعہ کے دن شام اور عراق میں 85 نشانوں پر حملے کئے اورا ن کی جانب سے پلٹوار امریکی فوجی اڈے پر خطرناک ڈرون حملے کے بعد کیا گیا ۔برطانیہ کے وزیر دفاع گرائنڈ شائپس نے کہا کہ حال ہی میں حملے کے بعد لال ساغر میں حوثی باغی منمانی نہیں کر سکے ۔انہوں نے کہا یہ حملہ حفاظت کیلئے ہے نا کہ کشیدگی بڑھانے کیلئے یمن کے حوثی باغیوں نے نومبر میں لال ساغر میں کمرشل سمندری جہازوں کو نشانہ بنانا شرو ع کر دیا تھا جس سے بین الاقوامی سپلائی چین ٹھپ ہوئی تھی ۔حوثی باغیوں کو ایران کی حمایت حاصل ہے ۔شپنگ کمپنیوں نے لال ساغر کا استعمال بند کر دیا ہے ۔یہاں سے عام طور پر تقریباً 15 فیصدی بین الاقوامی سمندری تجارت ہوتی ہے ۔یہ شپنگ کمپنیاں اب لال ساغر کے بدلے جنوبی افریقہ کے آس پاس کے ایک لمبے راستے کا ستعمال کررہی ہیں ۔حوثی باغیوں کا کہنا ہے کہ وہ فلسطینیوں کے ساتھ یکجہتی جتانے کیلئے اسرائیل سے رابسطہ سمندری جہازوں کو نشانہ بنا رہے ہیں لیکن ایسے بہت سے سمندر جہازوں کا اسرائیل سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔حالانکہ یہ ایران پر سیدھا حملہ نہیں تھا۔واشنگٹن کا کہنا ہے مشرقی وسطیٰ میں حالیہ عدم استحکا م کے پیچھے زیادہ ایران کی طاقت شامل رہی ہے ۔عراق اور شام میں سات جگہوں پر 85 جگہوں کو نشانہ بنایا گیا ۔یہ حملے نہیں کررہا بلکہ ایران حمایتی ملیشیا اور ایرانی حمایتی کویت فورسز (طاقتور ایرانی ریوولوشنری گارڈ کی صلاحیتوں کو کم کرنے کے مقصدسے حملے کئے گئے تھے ۔واشنگٹن اس جنگ میں ہونے والے اپنے نقصان کا اندازہ خود لگائے گا لیکن یہ ممکنہ طور پر لڑاکوں کی موت سے زیادہ انہیں منتشر کرنے کیلئے تھا ۔کئی دنوں تک اپنے ارادوں کو ٹیلی گرام کے ذریعے اجاگر کرتے ہوئے واشنگٹن نے کپرس فورسز اور ان کے مقامی ممبروں کو نقصان پہونچانے والے علاقوں سے نکلنے کا وقت دیا گیا تھا ۔واشنگٹن نے یہ صاف کیا کہ وہ ایران کے ساتھ سیدھا ٹکراو¿ نہیں چاہتا ہے ۔جمعہ کی کاروائی 28 جنوری کو اردن میں 3 امریکی فوجیوں کی موت کے بعد اس لئے ہوئی کہ آگے پھر امریکیوں کو نشانہ نہ بنایا جا ئے ۔بہرحال ان حملوں کا مقصد خاص طور سے فوجی کاروائی تک محدود نہیں تھا اپنے عراق کی بیلسٹک میزائل و ڈرون پروگرام سے مبینہ طور پر شامل کمپنیوں کے ساتھ ایرانی ریولوشنری گارڈ کی سائبر الیکٹرونک کمانڈ کے چھ حکام پر بھی پابندی لگائی تھی ۔تین دن پہلے ایرانی حمایت یافتہ عراقی ملیشیا میں سے ایک خطرناک تنظیم حزب اللہ کے نیتا نے کہا تھا کہ اس نے امریکی فوجیوں کے خلاف کاروائی ملتوی کردی ہے ۔جو اس بات کا ممکنہ اشارہ ہے کہ ایران پہلے ہی کشیدگی سے بچنے کیلئے کوشش کررہا ہے ۔لیکن اب جبکہ امریکہ نے جوابی حملہ کیا ہے تو یا تو تہران اپنی حکمت عملی بدل سکتا ہے ؟ ایران نے کہا کہ وہ امریکہ سے جنگ نہیں چاہتا لیکن مشرقی وسطیٰ میں اپنے ساتھیوں حزب اللہ سے لیکن یمن میں حوثی باغیوں کے ذریعے جواب دینے کیلئے اس کے پاس کئی متبادل ہیں ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟