ڈونلڈ ٹرمپ کی دھماکہ دار جیت !

اوہیو کاکس کی تاریخ میں شاید پہلی بار سب سے چوکانے والی جیت رہی ہے ۔رپبلکن پارٹی کے صدارتی عہدے کے امیدوار کیلئے ہوئے پہلے چناو¿ میں ڈونلڈ ٹرمپ نے یکطرفہ جیت درج کی ہے ۔مہینوں سے اس پولنگ کے نتیجوں کا اندازہ لگایا جا رہا تھا اور آخیر میں ایسا ہی ہوا ۔کاو¿نٹنگ کے دورا ن سابق صدر نے یکطرفہ بڑھت بنائے رکھی اور منگلوار کی رات ان کی جیت کے بعد کڑاکے کی ٹھنڈ میں ان کے حمایتی اس جیت کا جشن منارہے تھے ۔ٹرمپ کے اہم حریف نکی ہیلی ، راو¿ن ڈیسٹسٹ اور ان کی آئیڈیا لوجی سے ملتے جلتے (ہندوستانی نژاد) وویک کہیں بھی انہیں چنوتی دیتے نہیں دکھائی دئیے ۔ان کے ووٹ تقسیم بھی نہیں دکھائی دئیے ۔دوسری طرف ان کے حریف وویک راما سوامی نے اعلان کر دیا ہے کہ وہ چناو¿ سے پیچھے ہٹ رہے ہیں اور نیو ہیمپ شارمیں منگلوار کو ٹرمپ کی حمایت کریں گے ۔یہاںاوہیو کے نتیجوں کو قریب سے دیکھے جانے کی ضرورت ہے کیوں کہ وائٹ ہاو¿س کی دوڑ میں یہ بے حد اہم ہے ۔اوہیو میں کوئی بھی 12 پوائنٹ سے زیادہ بڑھت نہیں بنا پایا تھا جبکہ ٹرمپ نے 30 فیصدی کے فرق سے بڑھت بنائی اور مکمل اکثریت سے جیت درج کی ۔سبھی ووٹوں کی گنتی کی گئی اور ٹرمپ کو 51 فیصدی ڈیسٹسٹ کو 21 فیصدی اور ہیلی کو 19 فیصدی ووٹ ملے ۔اوہیو میں جس طرح پولنگ ہوئی وہ اس بات کی مثال ہے کہ کم کیوں اب تک پارٹی کی حکمت عملی میں بازی ماررہے ہیں ۔پارٹی کے زیادہ تر لوگوں کا بھروسہ ہے کہ ابھی بھی ٹرمپ کے میک امریکہ گریٹ اگین والے جملے پر بنا ہوا ہے ۔ٹرمپ کی جیت میں سماج کے سبھی طبقوں کا اشتراک تقریباً برابررہا ہے انہیں چناو¿ میں نوجوانوں ،بزرگوں ،مردوں اور عورتوں کی سبھی کی پرزور حمایت ملی ہے ۔ویفور ساو¿تھ پنتھی ووٹروں کا ووٹ لینے میں بھی کامیاب رہے ہیں جو 2016 میں ان سے دور تھے ۔امریکہ میں عام طور صدارتی چناو¿ میں ہارنے والے امیدواروں کو لوگ بھول جاتے ہیں ہارے ہوئے امیدوار کبھی بھی دوبارہ واپسی نہیں کر پاتے ہیں ۔لیکن اوہیو میں جیت نے دکھا دیا ہے کہ رپبلکن پارٹی میں اب بھی ٹرمپ کی خاصی دھاک ہے ۔رپبلکن پارٹی کے اندر ٹرمپ کی طاقتور موجودگی پر کبھی کسی کو کوئی شبہ نہیں رہا ہے ۔لیکن اوہیو میں ملی کامیابی امریکی سیاست کے حساب سے غیر معمولی ہے ۔تین برس پہلے ٹرمپ نے صدر کا پہلا دورہ حکومت تنازعوں کے بیچ ختم کیا تھا ۔9 جنوری کو کیپٹل ہل پر ان کے حمایتیوں کی ہڑدنگ بازی ہوئی تھی ۔ہڑدنگ امریکی تاریخ کا سب سے تکلیف دہ حصہ نوجوانوں کا ہے ۔اس دنگے کیلئے ٹرمپ پر دو بار کرائم کے مقدمہ بھی چل رہے ہیں ۔اب اوہیو میں ملی جیت کے بعد انہوں نے نومبر میں ہونے والے صدارتی چناو¿ میں رپبلکن پارٹی کا امیدوار بننے کی سمیت میں قدم بڑھایا ہے ۔لیکن اب بھی ٹرمپ کو پارٹی کا امیدوار بننے کیلئے سخت جدوجہد کرنی ہے ۔آگے کی پرائمری میں بھی یہی ٹرینڈ رہا تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ ٹرمپ نے صدارتی عہدے کیلئے پارٹی کی امیدواری جیتی تو نائب صدر کی امیدواری کیلئے ڈی سینٹنس یا نکی ہیلی میں سے کوئی ایک چناجائے گا ۔حالانکہ یہ صرف ایک ریاست کے پرائمری کا نتیجہ ہے ۔ابھی تمام ریاستوں میں ایسا ہی ہوگا جس میں تمام دعویداروں کو اپنا پرفارمنس بڑھیا کرنے کیلئے بہتر موقع ملے گابہرحال اگلا پرائمری 23 جنوری کو نیو ہیمشائر میں ہے ۔ہر پرائمری کے ساتھ تصویر صاف ہوگی ۔اوہیو میں ملی جیت کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ کی مہم کو یقینی طور پر ایک رفتار ملے گی ۔جب تک ووٹ ڈالنے کی باری آئے گی تب تک ٹرمپ کو امید ہے کہ وہ ایک طاقتور امیدوار کے طور پر ابھر چکے ہیں ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟