عدالت کے فیصلے کو حکومت خارج نہیں کر سکتی!

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ڈی وائی چندر چور نے سنیچر کو کہا کہ آئین سازیہ عدالے کے فیصلے میں خامی کو دور کرنے کے لئے نیا قانون نافذ کر سکتی ہے لیکن اسے سیدھے طور پر خارج نہیں کر سکتی چیف جسٹس آف انڈیا نے راجدھانی میں ایک پروگرام میں کہا کہ جج صاحبان اس بات پر توجہ نہیں دیتے کہ جب وہ مقدموں کا فیصلہ کریں گے تو سماج کیا کہےگا حکومت کی منتخب برانچ و عدلیہ میں یہیں فرق ہے ان کا کہنا تھا کہ ججوں کو جنتا سیدھے طور پر نہیں چنتی یہ کوئی کمزوری نہیں بلکہ عدلیہ کی ایک طاقت ہے یہیں وجہ ہے کہ عدلیہ فیصلہ دیتے وقت انتظامیہ کی طرح جنتا کی ناراضگی کے تینںدیدھے طور پر جواب دے نہیں ہوتی بلکہ آئین کے تینں جواب دہہ ہوتی ہے جج آئینی اقدار کی تعمیل کرتے ہیں اس کی ایک حد ہے کہ عدالت کا فیصلہ آنے پر آئین سازیہ کیا کر سکی ہے اور کیا نہیں کر سکتی اگر کسی خاص اشو پر فیصلہ دیا جاتا ہے تو آئین سازیہ اس خامی کو دور کرنے کے لئے نیا قانون لا سکتی ہے ۔آئین سازیہ یہ نہیں کر سکتی ہمیں لگتا ہے کہ فیصلہ غلط ہے اور اس لئے ہم فیصلے کو خارج کرتے ہیں آئین سازیہ کسی بھی عدالے کے فیصلے کو سیدھے خارج نہیں کر سکتی انہوںنے یہ بھی کہا جج قدموں کو فیصلہ کرتے وقت آئینی اخلاقیات کو ذہن میں رکھتے ہیں نہ کے سماجی اخلاقیات کو ۔اس سال کم سے کم 72 قدموں کا نپٹارا ہوا ہے اور ابھی دےڑھ مہینہ باقی ہے عدلیہ میں ریاستی ستہہ پر کچھ ڈھانچے بندی رکاوٹیں ہےں اگر یکسا موقع پر اور جگہ دستیاب ہوں گی تو زیادہ عورتیں عدلیہ میں آئیں گی ۔دراصل جمہوریت کی تشکیل کے تریقوں میں ہوتا ہے اور دونوں ایک ساتھ ہی جمہوریت کے تیسرے حصہ انتظامیہ کو مل کر اپنی ذمہ داری نبھانی ہوتی ہے اور ذمہ داریوں میں ملن ساری کے ساتھ ہی جمہوری نظام کے ان ستون سے توقعات اور تقازہ بھی سیرے سے ملے ہوتے ہیں ظاہر ہے کہ تینوں حصے ایک ہی سمت میں سوچیں یا ایک ہی آواز میں بولیں اور سرے سے ضروری نہیں اور تینوں ستون کے ایک ساتھ آنے کے پیش نظر ایک ہی نقطے سے بھی دیکھنا نہیں چاہئے چیف جسٹس نے اس طرف اشارہ کیا کے سپریم کورٹ جنتا کی عدالت ہے جس کا مقصد جنتا کی شکایتوں کو سمجھنا ہے اور سماعت کی ترقی کے لئے قانونی اصولوں پر عزم کے ساتھ تعمیل کرنا ہے ججو کو سیدھے جنتا نہیں چنتی یہ عدلیہ کی کمزوری نہیں بلکہ اس کی طاقت ہے اس پر ذمہ داری ہے کے دوسروں کے مقابلے وہ ان کی توقعات کے مطابق نہیں بلکہ اس کے فیصلوں مےں آئین کو جواب دیہی ذےادہ ہے ۔دراصل پچھلے کچھ وقت سے دیکھا جا رہا ہے کے سپریم کورٹ کے فیصلوں کو پلٹنے کے لئے سرکار نیا قانون بناکر اسے مسترد کرنے کی کوشش کر رہی ہے شاید اس لئے چیف جسٹس چندر چور نے سرکار کو خبردار کیا ہے کے آپ ہمارے فیصلوں کو مسترد نہیں کر سکتے ۔(انل نرےندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟