14ٹی وی اینکروں کا بائیکاٹ !

اپوزیشن اتحاد انڈیانے 14ٹی وی اینکروں کے پروگراموں کا مختلف اسٹیجیز ڈیبیٹ پر بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے ۔اتحاد کی میڈیا کمیٹی نے ان صحافیوں کے پروگراموں کو بائیکاٹ کرنے اور ایسے ٹی وی چینلوں یا پلیٹ فارموں پر ان کی بحث میں اپنے نمائندوں کو بھی نہ بھیجنے کا فیصلہ لیا ہے ۔ کانگریس کے ترجمان پون کھیڑا کا کہنا ہے کہ نفرت بھرے مباحثے سماج کو کمزور کر رہے ہیں۔ انڈیا اتحاد کے اس فیصلے پر بی جے پی صدر جے پی نڈا نے کہا کہ نیوز اینکروں کی اس طرح لسٹ جاری کرنا نازیوں کے کام کرنے کا طریقہ ہے جس میں یہ طے کیا جا تا ہے کہ کس کو نشانہ بنانا ہے ۔ اب بھی ان پارٹیوں کے اندر ایمرجنسی کے وقت کی ذہنیت بنی ہوئی ہے ۔ نیوز چینل آج تک اور انڈیا ٹوڈے اور جی این ٹی کے نیوز ڈائریکٹر سپریا پرساد نے ایکس پر اس فیصلے کی مخالفت کرتے ہوئے لکھا ہے: میں اس بندشی قدم کی سخت مذمت کرتا ہوں اس ایک طرفہ قدم کو فوراً واپس لیا جانا چاہئے ۔ وہیں این ڈی ٹی وی کے سابق اینکر رویش کمار نے بھی ایکس (ٹویٹر ) پر لکھا ہے کہ سات سال سے میں بائیکاٹ جھیلتا رہا ہوں ،ساتھ گھنٹے بھی نہیں ہوئے ایسا لگ رہا ہے کہ پہلی بار نوسال میں وزیر اعظم پہلی بار پریس کانگریس کر ہی دیںگے ۔ پریس کی آزادی کی حفاظت کیلئے کانگریس کے ترجمان پون کھیڑا نے کاروائی کو مناسب بتاتے ہوئے کہا کہ کچھ چینلوںنے پچھلے نو برسوں سے نفرت کا بازار لگا رکھا ہے ۔ اتحاد نے اس نفرت سے بھری کہانی کو جائز نہ ماننے کا فیصلہ کیا ہے جو ہمارے سماج کو نقصان پہنچا رہی ہے ۔ ہم نے یہ فیصلہ بڑے بے دلی سے لیا ہے ۔ اگر آگے چل کر یہ اینکر سدھر جاتے ہیں تو ہم پھر سے ان کے پروگراموں میں شامل ہو سکتے ہیں ۔ہم نے ان کا بائیکاٹ نہیں کیا بلکہ عدم تعاون کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ اگر کوئی اینکر نفرت پھیلانے والی بات کرتا ہے جیساکہ آئی این ڈی اے کا الزام ہے تو ان کے شو میں اپوزیشن کے لیڈروں کے شامل نہ ہونے سے کیا حاصل ہوگا۔ اس سوال کے جواب میں سینئر صحافی این کے سنگھ کہتے ہیں کہ اینکر کے بائیکاٹ سے چینلوں کی ساکھ پر ایک طرح کا حملہ کیا گیا ہے ۔کہا گیا ہے کہ تم طرف داری ہو اور جو کچھ نو سال سے ہو رہا تھا لوگ دیکھ رہے ہیں ۔ اینکر کا بائیکاٹ کرنا احتجاج جتانے کا ایک طریقہ ہے ۔وہ بتانا چاہتے ہیں کہ آپ جو کررہے ہیں وہ صحیح نہیں ہو رہا ہے ۔ بہت سے اینکر کسی ایک نیت یا سابقہ رنجش کو لیکر چل رہے ہیں اور ڈیبیٹ کر رہے ہیں ۔ وہ اس میں ایک فریق کی کھال ادھیڑ رہے ہیں اور دوسرے فریق کے ساتھ کھڑے ہیں یا انہیں کچھ نہیں بول رہے ہیں۔ اینکر کا کام ڈیبیٹ کو چلانا ہوتا ہے کسی فریق کی طرف داری کرنا نہیں ہوتا ۔ ادھر کرناٹک کے ہائی کورٹ نے نیوز چینل آج تک کے مشیر ،مدیر و اینکر سدھیر چودھری کے خلاف درج ایف آئی آر کے سلسلے میں کہا کہ پہلی نظرمیں معاملہ بنتا ہے اور اس کی جانچ ہونی چاہئے ۔ حالاںکہ عدالت نے پولیس کو فوری کاروائی نہ کرنے کی ہدایت بھی دی ہے اگلی کاروائی 20ستمبر کو ہوگی۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟