ضمانت کے باوجود میںرہائی میں تاخیر!

چلو آخر کار زیر سماعت قیدیوںمیں پریشانی پر سپریم کورٹ نے توجہ تو دی ہے ۔ قیدی اگر غریب اور ان پڑھ ہوئے تو ان کی پوری زندگی جہنمی حالات میں کٹتی ہے ۔انصاف انتظامیہ اور جیل انتظامیہ اپنی پرانی روایت سے اس قدر دبا چلا جاتا ہے کہ آج کی جدید تکنیک کے دور میں اس کی کئی باتیں مضحکہ خیز لگتی ہیں ۔ مثا ل کے طور پر عدالت سے ضمانت کا حکم ہوجانے کے بعد بھی بہت سے قیدیوں کی رہائی صرف اس لئے ٹل جاتی ہے کہ کیوں کہ وقت تک اس حکم کی کاپی جیل انتظامیہ تک نہیں پہنچ پاتی ۔ ضمانت کے حقدار ہونے یا ضمانت دیے جانے پر بھی زیادہ تر قیدیوں کے سلاخوںکے پیچھے رہنے کا نوٹس لیتے ہوئے سپریم کورٹ نے حکم دیا ہے کہ ضمانت ملنے کے باوجود قیدی ایک مہینے کے اندر بانڈ پیش کرنے میںناکام رہتے ہیں تو عدالتیں لگائی گئی شرائط کی ترمیم کرنے پر غور کریں۔ وہ اس بات بھی غور کریں کہ ضمانت کی شرط میں چھوٹ دی جا سکتی ہے کیا؟ سپریم کورٹ نے کہا کہ سالانہ رپورٹ بھی تیار کر رہی ہے جس کہ تحت یہ پتہ چلے گاکہ کتنے ملزم ہیں جن کی مالی حالت ٹھیک نہیں ہے اور وہ بانڈ بھرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ سپریم کورٹ کو یہ بھی بتایا گیا کہ 5ہزار سے زیادہ قید جیل میں رکھنے کی صلاحیت سے زیادہ ہیں اور آئے دن ایسے کیس دیکھنے کو مل رہے ہیں کہ ضمانت کے بعد بھی ملزم چھوٹ نہیں رہے ہیں کیوں کہ ان کو کوئی بانڈ دینے والا نہیں ہے۔ جسٹس ایم کے کول کی بنچ کے سامنے کورٹ مشیر گورو اگروال ایل مینو و دویش مہتا کی طرف سے تجاویزی روپورٹ طے کی گئی ۔ کورٹ نے اپنی دوخواست میں کہا کہ مرکز سرکار نیشنل لیگل سروس اتھارٹی سے بات چیت کرے اور یہ دیکھے کہ کیا ای -پریزن پورٹل پر اسٹیٹ لیگل سروس اتھارٹی اور ضلع لیگل سروس اتھارٹی بھیجی جا سکتی ہے؟جس سے تال میل بنے ۔مرکزی سرکار سے اڈیشنل سولیسیٹر جنرل نے کہا کہ وہ ہدایت لیکر کورٹ کو بتائیںگے۔ کیا کہا کورٹ نے اپنی گائڈ لائنز میں کورٹ جیسے ہی ضمانت کے حکم کے مو قع پر کاپی ای میل کے ذریعے جیل ایس پی کو بھیجیں اور ان کے ذریعے ملزم کو اسی دن ملے ۔اور پتہ لگا یا جائے کہ ملزم ضمانت کے حکم کے سات دنوں کے اند ر ہوا یا نہیں تو جیل کے سپرنٹنڈٹ ڈی ایل ایس اے کے سیکریٹری کو بتائے یا جیل ویزٹنگ ایڈوکیٹ کی تقرری کرےگا جو ضمانت کی شرط پوری کرواکر رہائی کرواے ۔بنچ کا خیا ل تھا کہ ایسے معاملوںمیں جہاں زیر سماعت قیدی یا قصوروار درخواست کرتا ہے کہ وہ رہا ہونے کے بعد ضمانت بانڈ یا ضمانت دے سکتا ہے۔ تو وہ ایک مناسب معاملے میں عدالت ملزم کوایک ہدایت نامے کے ذریعے ضمانت دینے پر غور کر سکتی ہے تاکہ وہ ضمانت بانڈ یا ضمانت کی رقم دے سکے ۔یہ بات بھی مختلف دلیلوں کے ساتھ سامنے آتی رہی ہے کہ جیلوں میں بند لوگوں کا بڑا حصہ ایسا ہوتا ہے جو ڈھنگ کا وکیل رکھنے اور اپنے حق کی لڑائی لڑنے کا اہل نہیں ہوتا ہے ۔ ظاہر ہے ایسے میں تمام لوگوں کیلئے عدالتیں ہی امید بن سکتیں ہیں ۔ بشرط کہ یہ اس اصول پر سختی سے عمل کریں اور الزام ثابت ہونے سے پہلے ہر کوئی بے قصور ہوتا ہے۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟