اتھارٹیوں و بلڈروں کا غرور بھی تباہ ہوا !

گھر خریدنے والوں کی انجمن فورم فار پیپلس کلیکٹیو ایکٹر س نے نوئیڈا میںسپرٹیک ٹوئن ٹاوروں کو گرائے جانے کو فلیٹ خریداروں کیلئے ایک بڑی کامیابی بتایا ۔ انجمن کے مطابق یہ صرف عمارت کا گرانا نہیں ہے بلکہ بلڈروں اور اتھارٹیوں کے غرور اور ان کے اس نظریے کاڈھنا ہے ۔ بد نام ٹوئن ٹاور تو گرانا دئے گئے لیکن ایک سوال ابھی بھی باقی ہے جس کرپشن کی تال میل کی وجہ سے یہ ٹاور بنے اور ان میں ذمہ دار لوگوں کو سزا کب ملے گی ۔ نوئیڈا اتھارٹی میں بیٹھے جن حکام تمام قواعد کو درکنار کر نقشے پاس کئے اور بلڈروں کو این اوسی بھی دئے جب تک ان کے خلاف کوئی سخت کاروائی نہیں ہوگی تب تک لوگوں میں یہ بھروسہ جگانا مشکل ہے کہ اب آگے ایسا نہیں ہوگا ۔ یہی وجہ کہ زیادہ تر لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ کرپشن کا یہ کھیل ایساہی چلتا رہے گا۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ بلڈرلابی کے دل میں کوئی ڈر پیدا ہوگا کہ وہ ایسی من مانی کرنے سے پہلے دس بار سوچیں گے ۔ کیا کوئی سسٹم تیار کر لیا گیا ہے کہ جہاں گھر خریداروں کے مفاد کا خیال رکھا گیا ہے؟ گھر خریداروں کیلئے آواز اٹھانے والوں کا کہنا ہے کہ ریئل اسٹیٹ ریگولیٹری اتھارٹی کے قیام کے بعد خریداروں کے حقوق کافی حد تک محفوظ ہوئے لیکن اس میں کہیں ناجائز تعمیر پر شکایت کو لیکر کوئی سہولت نہیں ہے ۔ایسی شکایتوں کیلئے خریداروں کے پاس متعلقہ ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے پاس جانے کا ہی متبادل ہے جہان ایک انفورسمنٹ ٹیم اس کی جانچ کرتی ہے لیکن جو افسر اس ملی بھگت میں شامل ہوں ان کی شکایت انہیں کی دفتر میں کریں گے اور جانچ وہیں کریں گے تو انصاف کیسے ملے گا۔ ضروری ہے کہ اتھارٹی سے الگ ایک باڈی بنائی جائے جہاں لوگ اپنے شکایت لیکر جا سکیں ۔کیوں کہ اگر کوئی اتھارٹی سماعت نہیں کرتی تو صرف ہائی کورٹ جانے کا متبادل بچا ہے ۔ لمبی قانونی لڑائی کی وجہ سے بہت سے لوگ عدالت نہیں جاتے اور اسی کا فائدہ بلڈر اور اتھارٹی اٹھا تی ہے ۔ قوانین میں جو خامیاں ہیں ان کو دور کیا جا سکتا ہے ۔ یعنی ایک بار جو پلان منظور ہو وہیں فائنل ہو اس میں بار بار تبدیلی کی اجازت نہیں دی جائے آگے کیلئے کیا سبق ہو اور کیسے اس کا جواب ہے کہ جلد سے جلد ذمہ دار لوگوں پر کاروائی ہو تبھی لوگ ڈریں گے ورنہ نہیں ۔ اس کھیل کوئی نچلے سطح کے افسر شامل نہیں ہوتے ان پر اوپر تک ملی بھگت ہوتی ہے ان سب کو قانونی کٹگھرے میں کھڑا کرکے جلد سے جلد سزا دلانا ضروری ہے ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟