اگر ہمیں ہی سب مسائل پر سوچنا پڑے تو سرکار کیوں چنی؟

روہنگیا مسلمانوں اور بنگلہ دیشی گھس پیٹھیوں کی پہچان کرکے انہیں جلاءوطن کرن کی عرضی پر سپریم کورٹ نے جمعرات کو کہا کہ یہ حکومت سے منسلک مسئلے ہیں ۔انہیں سرکار کے پا س لے جائیں ۔چیف جسٹس این وی رمن کی سربراہی والی تین نفری بنچ نے کہا اگر ہمیں ہی سبھی مفاد عامہ کی عرضیوں پر غور کرنا ہے تو ہم نے سرکار کیوں چنی ہے ؟ حالانکہ بنچ نے عرضی کو لسٹڈ کرنے کے لئے رضامندی ظاہر کر دی ۔بنچ نے عرضی گزار وکیل و بھاجپا نیتا اشون کمار اپادھیائے سے کہا کہ ہر دن ہمیں صرف آپ کا کیس ہی سننا ہوتا ہے ؟ آپ سبھی مسئلوں کو لیکر عدالت میں آتے ہیں چناو¿ اصلاحات پارلیمنٹ آبادی کنٹرول کا مسئلہ ہو تو یا کچھ اور ۔۔۔بنچ نے یہ رائے زنی اس وقت کی جب اپادھیائے نے اپنی مفاد عامہ کی عرضی پر سماعت کی مانگ کرتے ہوئے کہا کہ ناجائز تارکین وطن کے ذریعے کروڑوں نوکریاں چھینی جا رہی ہیں اور اسے ہندوستانی شہریون کے گزر بسر کے حق پر اثر پڑ رہا ہے ۔چیف جسٹس رمن نے ان سے کہا کہ یہ سیاسی اشو ہیں انہیں سرکار کے پاس لے جائیں ۔اگر ہمیں ہی آپ کی سبھی مفاد عامہ کی عرضیوں پر غور کرنا ہے تو ہم نے سرکار کیوں چنی ۔راجیہ سبھا اور لوک سبھا جیسے ایوان ہیں اس پر عرضی گزار نے کہا اس معاملے میں پچھلے سال مارچ میں نوٹس جاری کیا گیا تھا لیکن اب کچھ معاملوںمیں کوئی پیشرفت نہیں ہوئی ہے وہیں کورٹ روم میں موجود سرکاری وکیل سولی سیٹر جنترل تشار مہتا نے کہا کہ انہیں معاملے کی جانکاری نہیں ہے ۔عرضی میں مرکز اور ریاستی حکومتوں کو غیر قانونی گھس پیٹھیوں کو غیر ضمانتی اور غیر معاہدہ جرم بنانے کے لئے آئین میں قوانین میں ترمیم کرنے کی ھدایت دینے کی مانگ کی گئی ہے عرضی میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ مرکزی سرکار دیش میں نہ تو غیر قانونی دراندازوں کو روکنے کے لئے سنجیدہ ہے اور نہ ان کو ضلع وطن کرنے پر سنجیدی ہے ۔عرضی میں کہا گیاہے کہ مرکزی سمیت سبھی ریاستی سرکاروں کو ھدایت دی جائے کہ ایک برس کے اندربنگلہ دیشیوںاور روہنگیا سمیت سبھی گھس پیٹھیوں کی پہچان کی جائے اور انہیں حراست میں لے کر ان کے دیش بھیجا جائے۔ عرضی میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ غیرملکی ایکٹ 1946میں مرکز میں سبھی ریاستی حکومتوں کو گھس پیٹھیوں کے لئے مو¿ثر قدم اٹھانے کی بات کہی گئی ہے ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟