ٹائیگر زندہ ہے :بھارت نے پیش کی مثال

کہا جا تا ہے کہ ایک وقت میں دنیا میں جتنے شیر تھے اب اس کے پانچ فیصد رہ گئے ہیں مسلسل ٹائیگرس کی گھٹتی تعداد کو لے کر کافی عرصہ سے تشویش ظاہر کی جاتی رہی ہے ۔اور اس میں بہتری کے لئے تمام مہم چلائی گئی ایسے وقت میں جب دنیا میں شیروں کی تعداد مسلسل کم ہو رہی ہے بھارت میں ان کی تعداد بڑھنا ایک اچھی خبر ہے ۔پیر کے روز ورلڈ ٹائیگرس ڈے پر وزیر اعظم نریندر مودی نے شیروں کی شماری کے جو اعداد و شمار جاری کئے ہیں اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس محاذ پر اتنے برسوں کے دوران جو کوشش کی گئی اس کا اچھا نتیجہ اب سامنے آنے لگا ہے ۔جنگلاتی تحفظ انسٹی ٹیوٹ کی رپورٹ کے مطابق دیش بھر میں ٹائیگرس کی تعداد اس سال 2967پائی گئی ہے یہ 2014میں کل ٹائیگرس کی تعداد کے مقابلے 741زیادہ ہے یعنی پچھلے پانچ برسوں میں ان کی تعداد میں 33فیصد یعنی ایک تہائی اضافہ ہوا ہے ۔ظاہر ہے ٹائیگرس کی کم تعداد کو دیکھتے ہوئے ان کے تحفظ کو لے کر جس طرح کی تشویش جتائی جا رہی تھی اس لحاظ سے یہ اعداد و شمار کافی راحت بھرے ہیں حالانکہ تعداد بڑھنے کی یہ امید شیر شمار شروع ہوتے وقت ہی تھی چونکہ پہلے انتظام ٹھیک نہ ہونے کے سبب نارتھ ایسٹ کی ریاستوں میں شیروں کی شماری نہیں مل پاتی تھی لیکن اس مرتبہ ان کی گنتی کرانے کے لئے ٹھیک انتظامات ہوئے ۔حالانکہ دیش میں ان ٹائیگرس کی تعداد بڑھنے کی یہ اکیلی وجہ نہیں ہے ۔چھتیس گرھ میزورم کو چھوڑ کر دیش کے تقریبا سبھی حصوں میں ٹائیگرس کی تعداد بڑھ رہی ہے ۔خاص کر مدھیہ پردیش کرناٹک،اتراکھنڈ،شامل ہیں۔دنیا بھر میں ٹائیگرس کی تعداد گھٹنے کی جو وجوہات ہیں وہ ہمارے سامنے موجو دہیں عام طور پر دو وجوہات مانی جاتی ہیں ۔ایک تو ان جنگلوں میں لگاتار کٹائی اور جنگلوں کا گھٹنا شامل ہے جو شیروں یا ٹائیگرس کی قدرتی رہائش گاہ ہے ۔دوسرا شیروں کا ناجائز کاروبار اور اسکی وجہ سے ان کا شکار ہے تازہ اعداد و شمار ثابت کرتے ہیں کہ محکمہ جنگلات ان کے بچاﺅ کے لئے کافی سرگرم ہوا ہے ۔اور اس نے ناجائز شکار اور کاروبار پر سختی برتی ہے ۔جس کے اچھے نتیجے ملے ہیں ابھی بھارت میں شیروں کی پناہ گاہوں کا کل رقبہ 3لاکھ 80ہزار مربہ کلو میٹر ہے جبکہ گنی گئی تین ہزار ٹائیگرس کو رہنے کے لئے دو سو مربہ کے حساب سے تقریبا چھ لاکھ مربہ میٹر یعنی دو گنا جگہ کی ضرورت ہے جگہ کم ہونے کے تین اثرات دیکھے جاتے ہیں ۔اور جگہ کی تنگی کے سبب شیر یا ٹائیگر س آپس میں لڑ کر مر جاتے ہیں ۔دوسرا اپنی خوراک پوری کرنے کے لئے انسانی بستیوں میں چلے جاتے ہیں اور لوگوں کے غصے کا شکار بنتے ہیں ۔کئی مرتبہ تک فاقہ کشی سے شکار ہو کر مرے ہوئے پائے جاتے ہیں ۔بے شک شیروں کی نئی تعداد کے شمارات اچھی خبر دے رہے ہیں لیکن سچ یہ ہے کہ ابھی خطرہ ٹلا نہیں ہے ۔ٹائیگرس کی بساست والے علاقوں میں انسانی آبادی سے الگ الگ طریقہ سے پھیلنے کی وجہ سے مسئلہ بڑھتا جا رہا ہے ۔اور یہ آج بھی بڑا چیلنج ہے اس کے علاوہ جس سندر بن کو ٹائیگرس کے لئے سب سے بہتر مقامات میں سے ایک مانا جا رہا ہے ۔وہاں بھی بڑھتی سمندری سطح کی وجہ سے ایک بڑے جنگل کے حصہ کے ڈوب جانے کا خطرہ منڈرا رہا ہے ۔اگر یہ حالت سامنے آتی ہے تو پھر ٹائیگرس انسان کی رہائش کی طرف رخ کر سکتے ہیں اور پھر شیروں اور انسان کی لڑائی بڑھ جائے گی ظاہر ہے تازہ کارنامے کی رفتار بنائے رکھنے کے لئے ضروت اس بات کی ہے کہ ٹائیگرس کی بساوٹ کو آسان بنانے کے علاوہ ان کے تحفظ کے اقدامات یا متابادل پر بھی کام کیا جائے ۔ٹائیگرس کی بڑھتی تعدا د کے لئے ذمہ دار سبھی محکموں کو بدھائی کم سے کم بھارت میں تو ہمارے بچے شیروں کو دیکھنے سے نہیں رہیں گے ۔

(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟