بے سمت،بھٹکتی کانگریس پارٹی!

جموں کشمیر میں بےشک دفع 370ختم کر دی گئی لیکن اس معاملہ میں اپوزیشن پارٹی کانگریس کے تقسیم ہونے کی خبریں آنا تکلیف دہ ضرور ہے ۔کانگریس ورکنگ کمیٹی کی میٹنگ میں جموں کشمیر سے وابسطہ ممبر پارلمینٹ طارق احمد کارا نے یہا ں تک کہہ دیا کہ اگر پارٹی دفع370پر نظریاتی سمجھوتہ کرتی ہے تو ان کے لئے حریت میں شامل ہونے یا دپشت گر د بننے کے سوائے کوئی راستہ نہیں بچتا۔میٹنگ میں پارٹی سیکریٹری جنرل اور راہل گاندھی کے قریبی نیتا جوترادتیہ سندھیا اور دپیندرہڈا نے جب اسے قوم کا جزبہ بتا یا تو ان کی غلام نبی آزاد سے بحث ہو گئی ۔اس سلسلے میں پہلے دن سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ کے گھر پر کور گروپ کی میٹنگ ہوئی جب حل نہیں نکلا تو کانگریس ورکنگ کمیٹی کی میٹنگ بلائی گئی ۔پارٹی اس مسئلہ کو لیکر گہرے بہران میں ہے کیونکہ پارٹی کی ریاستی یونٹ اور کئی نیتا کہہ رہے ہیں کہ عوام کی رائے ہے کہ 370کو ہٹانے کا خیر مقدم کیا جائے اگر کانگریس اس مسئلہ پر اڑی رہی تو اسے بہت بڑا سیاسی نقصان ہوگا اس مسئلہ پر پہلے راجیہ سبھا میں پارٹی کے چیف وہیپ بھونیشور کلیتا نے پارٹی چھوڑی پھر جناردھن دیویدی اور دپندر ہڈا،ملند دیوڑانے پارٹی لائن کے خلاف جا کر 370ہٹانے کو دیش کے جزبات کے مطابق بتایا ۔رھیں غلام نبی آزاد نے اپنے نیتاﺅں کی رائے سے نا اتفاق ظاہر کیا ہے اور اسے پارٹی لائن کے خلاف بتایا ۔انہوں نے نصیحت دی کہ ایسے افراد کو پہلے کشمیر اور کانگریس کی تاریخ کرنی چاہیئے ۔سابق وزیر انل ساستی کا کہنا کہ کانگریس کا دیش کا موڈ سمجھنا چاہئے ۔370سے چپکے رہ کر کانگریس پورے دیش کی عوامی حمایت گنواں دیگی۔وھیں کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی نے ٹویٹ میں کہا کہ جموں کشمیر کو ایک طرفہ فیصلے میں ٹکڑے میں بانٹنے اور عوام کے نمائندوںکو جیل بھیج نے اور آئین کے خلاف ورزی کرنے سے قومی اتحاد نہین بن جا تا یہ غلط ہے یا صحیح اس پر بحث ہوگی کانگریس پارلیمانی نیتا ادھیر رنجن چودھری نے کہا جموں کشمیر کواقوام متحدہ مونیٹر کرتا ہے اور اسے شملہ اور لاہو ر سمجھوتہ کی طرح باہمی مسئلہ مانا گیا ہے تو آپ فیصلہ کر سکتے ہیں ؟ان کے ساتھ بیٹھی سونیا گاندھی بھوکھلا گئیں سچھ تو یہ ہے کہ حالات قابلے رحم ہے دفع370کا خاتمہ اور جموں کشمیر کو دو حصوں میں بانٹنا اور مرکزی ریاست بنانے کے مسئلے پر کانگریس قومی مفادات کو ذہن میں رکھتے ہوئے اپنا موقوف واضح کر دینا چاہئے اس وقت کانگریس کی جو حالت وہ قیادت نہ ہونے کی صورت حال ذمہ دار ہے کیونکہ راہل کے استعفی کے بعد سے پارٹی کی کوئی قیادت نہیں ہے اس کا اثر پارٹی کی حکمت عملی سے لیکر پوری تنظیم پر پڑ رہا ہے امید کی جاتی ہے کہ کانگریس پارٹی جلد اپنے نئے صدر کا فیصلہ کرگی اور ہر اشو پر اپنا واضح موقوف اپنا کرخودہی مذاق نہ بن جائیگی۔ جیساآج ہو رہا ہے ۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟