سینئریٹی تنازع پر سپریم کورٹ کا فیصلہ

سینئریٹی تنازع کے درمیان جسٹس دنیش مہیشوری اور جسٹس سنجیو کھنہ کی سپریم کورٹ میں تقرری کو بدھوار کو صدر جمہوریہ نے اپنی منظوری دے دی ہے ۔کالیجیم نے ان دونوں ناموں کی سفارش کی تھی کرناٹک ہائی کورٹ کے چیف جسٹس دنیش مہیشوری سینئریٹی میں 21وے جبکہ دہلی ہائی کورٹ کے جج سنجیو کھنہ سینئریٹی میں 33وے نمبر پر ہیں ۔کالیجیم نے پہلے دو ججوں کو لانے کی سفارش کی تھی بعد میں اسے بدل کر دو جونئیر ججوں کو سپریم کورٹ لانے کی توسیق کی گئی تھی اس بات پر عدلیہ میں واویلا کھڑا ہو گیا اس فیصلے سے سپریم کورٹ وہائی کورٹ کے موجودہ اور سابق جج صاحبان میں کافی بے چینی ہے ہائی کورٹ کے ایک سابق جج نے تو صدر کو خط لکھ کر سفارش منظور نہ کرنے کی سفارش تک کر ڈالی دونوں ججوں کی تقرری میں آل انڈیا سینئریٹی کی ٹیلی دیکھیں تو بار کونسل آف انڈیا میں اس پر اعتراض جتایا ہے ۔سپریم کورٹ کے جج کشن کول نے بھی تقرریوں پر مایوسی ظاہر کی ہے انہوںنے اسے غلط روایت کی شروعات بتایا ہے سابق جج (دہلی ہائی کورٹ کیلاش گمبھیر نے صدر کو خط لکھ کر تاریخی غلطی نہ ہونے دینے کی اپیل بھی کی تھی ۔سپریم کورٹ کے چیف جسٹس گگوئی اور کالیجیم کے دیگر ممبران کو خط لکھ کر تقرری میں سینئریٹی کو در کنار کرنے کا سوال اُٹھایا تھا فی الحال دونوں ناموں پر صدر کی مہر لگنے کے بعد سپریم کورٹ میں ججوں کی کل تعداد 28ہو گئی ہے ۔سپریم کورٹ میں ججوں کی جائز عہدوں کی آسامیاں 31ہیں لیکن ان دونوں ججوں کی تقرری پر اُٹھا تنازع عدلیہ کی غیر جانب دار ساکھ پر شبہ ضرور پیدا کرتا ہے اس بارے میں جس طرح سے سپریم کورٹ کے موجودہ جج سنجے کول ،دہلی ہائی کورٹ کے سابق جج ایس این دھیرنگ اور بار کونسل آف انڈیا کے عہدیداران نے بھی ناراضگی جتائی ہے ۔وہ باعث تشویش ہے اعتراضات جسٹس مہیشوری اور جسٹس مورتی کھنہ کی اہلیت کو لے کر نہیں ہے بلکہ اعتراضات ان کی سینئریٹی کے بارے میں ہے جب ان سے زیادہ سینئرجج موجود ہیں تو انہیںسپریم کورٹ تک لانے میں انتظار کروایا جا سکتا تھا اعتراض اس سے بھی زیادہ بارہ دسمبر کے اس فیصلے کو پلٹے جانے سے ہے جس میں راجستھان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس راجیندر مینن اور دہلی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس پردیپ نادرا جونگ کو سپریم کورٹ میں لانے کا فیصلہ لیا تھا سنجیو کھنہ اچھے جج ہونے کے ساتھ ان مشہور جج ایم آر کھنہ کے بھتیجے ہیں جنہوںنے ایمرجنسی کی اکیلے مخالفت کرنے کی ہمت دکھائی تھی ۔ان ماموںکو فوری منظوری دینے کے پیچھے عدلیہ میں ججوں کی کمی بتائی جا رہی ہے اس کے باوجود لگتا ہے کہ سارے اعتراضات کا پورا جواب ملنا ابھی باقی ہے اس سے پہلے بھی جسٹس ٹی ایس ٹھاکر اور عدلیہ میں تنازعہ میں کولیجیم کی لاچاری دکھائی دے چکی ہے ایسے میں آئینی اداروں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ غیر جانبداری اورمختاری بر قرار رکھیں ۔

(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟