نہیں رہے کڑوے پروچن دینے والے منی ترون ساگر

پچھلے کچھ دنوں سے پیلیا کے مرض سے بیمار راشٹر سنٹا منی108 ترون ساگر جی مہاراج کا 1 ستمبر کو صبح سویرے قریب 3 بجکر 18 منٹ پر مشرقی دہلی کے کرشنا نگر میں واقع رادھا پوری جین مندر سے اپنی اننت یاترا پر چلے گئے۔ غور طلب ہے کہ51 سالہ بڑبولے مقرر جین منی ترون ساگر پچھلے کچھ دنوں سے پیلیا کی بیماری میں مبتلا تھے۔ انہوں نے اپنے آخری وقت میں دوائیاں بھی لینے سے منع کرکے سمادھی لے لی تھی۔ جین روایت کے مطابق انہوں نے اپنے انتم وقت میں کھانا پانی چھوڑ کر اپنے پران تیاگ دئے۔ جین منی کے انتم وقت میں راجدھانی میں آرام کررہے دوسرے جین سنت بھی منی جی کے پاس پہنچ گئے تھے۔ جین منیوں کے سمجھانے پر انہوں نے تھوڑا بہت کھانا کھایا۔ گزشتہ 29 اگست کو منی ترون ساگر کے ذریعے تحریر خط بھی سامنے آیا ہے جس میں انہوں نے تمنا ظاہر کی تھی کہ میں بنا دکشا کے نہیں جانا چاہتا اس لئے سبھی جین منی گپتی ساگر کے پاس لے چلیں وہیں میرا آگے کا جیون دیکھیں، سمادھی دیں۔ آگے بھی انہوں نے کافی کچھ لکھا ہے۔ حالانکہ ان کے چیلے اس خط کی تردید کررہے ہیں۔ جین منی ترون ساگر جی کی انتم یاترا پر پارتھک شریر کو ان کے سنہاسن پر رکھا ہوا تھا جسے لوگوں نے اپنے کندھوں پر اٹھایا ہوا تھا۔ اس انتم یاترا میں دیش کی الگ الگ ریاستوں سے آئے شردھالو جن میں بزرگ، نوجوان ، عورتیں، بچے و جین منی شامل ہوئے۔ جین منی ترون ساگر اپنے بیانات کو لیکر اکثر سرخیوں میں رہا کرتے تھے۔ دگمبر جین منی تلخ پروچن کے نام سے سماج کو سندیش دیتے تھے۔ وہ سماج اور قومی زندگی کے اہم اشوز پر تلخ الفاظ میں اپنی رائے دیتے تھے۔جین منی نے ہریانہ اسمبلی میں پروچن دیا جس پر کافی تنازع کھڑا ہوا تھا۔ اس کے بعد گلوکار وشال ڈڈلانی کے ایک ٹوئٹ نے کافی ہنگامہ کھڑا کردیا تھا۔ معاملہ بڑھتا دیکھ وشال کو جین منی سے معافی مانگی پڑ گئی۔ اس تنازع کے بعد عام آدمی پارٹی سے وابستہ گلوکار ڈڈلانی نے اپنے آپ کو سیاست سے الگ کرلیا۔ مدھیہ پردیش میں 1967 میں پیدا ترون ساگر مہاراج کا اصلی نام پون کمار جین تھا۔ جین سنت بننے کے لئے انہوں نے 1981 میں گھر چھوڑ دیا تھا۔ قریب20 سال کی عمر میں انہوں نے آچاریہ پشپدنتھ ساگر جی سے منی دکشا لی تھی۔ حال ہی میں انہوں نے اپنی دگمبر دکشا کے20 سال پورے کئے تھے۔ ان کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ چھٹی کلاس میں پڑھائی کے دوران جلیبی کھاتے کھاتے سنیاسی بن گئے تھے۔ اس مشہور واقعہ پر منی ترون ساگر جی نے بتایا تھا بچپن میں مجھے جلیبی کا بہت شوق تھا ایک دن اسکول سے واپس لوٹتے وقت ایک ہوٹل میں جلیبی کھا رہا تھا تبھی میرے پاس میں آچاریہ پشپدنتھ جی کا پروچن چل رہا تھا۔ وہ کہہ رہے تھے تم بھی بھگوان بن سکتے ہو۔ یہ بات میرے کانوں میں پڑی۔ میرے سنت پرمپرا اپنالی۔ ہم ان کی پوتر اسمرتی میں جینندر شردھانجلی دیتے ہیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟