دہلی کا باس کون؟ راؤنڈ ون

دہلی سرکار اور لیفٹیننٹ گورنر کے درمیان حقوق کی حد پر سپریم کورٹ کے پانچ ججوں کی آئینی بنچ نے بدھوار سے سماعت شروع کردی ہے۔ بنچ نے کہا کے آئین کی دفعہ239AA انوٹھا ہے۔ سرکار کو اس کا سنمان کرنا چاہئے۔ پہلی نظر میں دوسرے مرکزی حکمراں ریاستوں کے مقابلے میں دہلی میں ایل جی کو زیادہ اختیار دئے گئے ہیں حالانکہ ایل جی سرکاری یوجنا سے وابستہ کوئی فائل دبا کر نہیں رکھ سکتے۔ اختلاف ہونے پر وہ آئین کے تحت معاملہ صدر کے پاس بھیجنے کے لئے مجبور ہوں گے۔ معاملے کی اگلی سماعت7 نومبر کو ہوگی۔ ایل جی اور دہلی سرکار کے درمیان حقوق کو لیکر تنازعہ پہلے بھی کبھی کبھار اٹھا کرتے تھے مگر دہلی میں عام آدمی پارٹی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے اختیارات کو لیکر برابر رسہ کشی کی حالت رہی ہے اس لئے اس معاملہ میں فیصلہ کن وضاحت کی ضرورت جتنی آج ہے اتنی شاید پہلے نہیں تھی۔ دہلی ہائی کورٹ نے اگست 2015 میں اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ لیفٹیننٹ گورنر ہی دہلی کا انتظامی چیف ہے۔ عاپ سرکار نے اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چنوتی دی تھی۔ سپریم کورٹ نے مسئلہ کی سنجیدگی اور نیچرلٹی کو دیکھتے ہوئے مناسبت سے ہی آئینی بنچ کو سونپ دیا۔ چیف جسٹس کی سربراہی والی آئینی بنچ نے سماعت کے پہلے مرحلہ میں موٹے طور پر وہی کہا ہے جو ہائی کورٹ نے کہا تھا۔ یعنی یہ لیفٹیننٹ گورنر ہی دہلی کے انتظامی منتظم ہیں، آئینی بنچ نے دہلی سرکار کی حدیں طے کررکھی ہیں اور اسے اسی کے دائرے میں رہنا ہوگا۔ سپریم کورٹ نے کہا کے جن موضوعات پر دہلی سرکار کو قانون بنانے کا حق ہے ان پر لیفٹیننٹ گورنر کیبنٹ کے فیصلے پر پوری طرح عمل کے لئے مجبور ہیں۔ ایسے اشو پر دہلی سرکار کی فائلیں نہیں دبا سکتے۔ دہلی کے ایڈمنسٹریٹر بہت ہی محدود علاقے کے لئے ہیں۔ بنچ نے کہا لیفٹیننٹ گورنر ان اشوز پ ایڈمنسٹریٹر کا کام کرسکتے ہیں جن پر دہلی سرکار قانون نہیں بنا سکتی۔ یہ اشو ہیں پولیس و لا اینڈ آرڈر اور عارضی۔ ان کے علاوہ سبھی معاملوں پر فیصلہ لینے کے لئے دہلی سرکار ہی مجاز ہے۔ سپریم کورٹ کے یہ ریمارکس اہم ہیں کیونکہ دہلی ہائی کورٹ نے اگست 2015 میں دئے گئے فیصلے میں کہا تھا کہ لیفٹیننٹ گورنر ہی دہلی کی ایڈمنسٹریٹر ہیں اور اسمبلی میں قانون بنانے کے لئے چنی ہوئی سرکار کو ان سے اجازت لینے کی ضرورت ہے۔ دہلی سرکار کے حقوق کا راستہ اس لئے سپریم کورٹ گیا کیونکہ وزیر اعلی اروند کیجریوال ہر معاملہ میں اپنے حساب سے اور یہاں تک کہ اپنی حدوں کو پار کرکے بھی دہلی سرکار چلانا چاہ رہے تھے۔ ان کی اسی چاہت نے مرکزی سرکار سے ٹکراؤ کی صورتحال پیدا کردی۔ شریمتی شیلا دیکشت بھی تو دہلی کی وزیر اعلی رہی ہیں لیکن ان کی سوجھ بوجھ اور آپس میں لیفٹیننٹ گورنر سے صحیح روابط بنانے کی وجہ سے ان کا کوئی کام نہ تو رکا اور نہ ہی آپسی تناؤ کی پوزیشن بنی۔ کیجریوال کو ہر مسئلہ پر ٹکراؤ چھوڑنا چاہئے اور ایل جی سے مل کر اپنا کام کرنے کا طریقہ ڈھونڈھنا چاہئے۔ اگر شیلا دیکشت کے ہم منصب طریقے سے حکومت چلانے میں سمجھدار رہی تو پھر کیجریوال کو پریشانی کیوں ہورہی ہے؟ سپریم کورٹ کے ان ریمارکس سے لگتا ہے کہ اس نے دہلی سرکار کی عرضی سرے سے خارج کردی ہے اور ہائی کورٹ کے فیصلے کو ہی دوہرایا ہے۔ لیکن ایسا نتیجہ نکالنا صحیح نہیں ہوگا۔ ایک طرف اس سبب سپریم کورٹ میں کوئی آخری فیصلہ نہیں سنایا ہے ابھی اور سماعت ہونی ہے۔ دوسرے اس نے ہائی کورٹ کے فیصلے سے تھوڑا مختلف رخ اختیار کرتے ہوئے دونوں فریقوں سے یہاں دہلی سرکار اور لیفٹیننٹ گورنر کو اپنی حدوں میں رہنے کی ہدایت دی ہے۔ جہاں تک کیجریوال کو یاد دلایا ہے کہ دہلی مرکز کے زیر انتظام ریاست ہے، اس لئے یہاں ریاستی سرکار کے حقوق و دیگر ریاستوں کی سرکاروں جیسے نہیں ہوسکتے وہیں لیفٹیننٹ گورنر کو بھی کہا ہے کہ وہ فائلوں پر کنڈلی مار کر بیٹھے نہیں رہ سکتے۔ انہیں ایک طے وقت کے اندر مرکز کے پاس فائلیں بھیجنی ہوں گی۔ ویسے یہ بھی صحیح ہے حقوق کا دائرہ چاہے جتنا واضح ہوجائے اگر دونوں فریقوں میں تعاون کا جذبہ نہیں ہوگا تو ٹکراؤ چلتا رہے گا اور دہلی کی جنتا اس میں پستی رہے گی۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟