قانونی ڈاکہ ،منظم لوٹ تھی نوٹ بندی

سابق وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ منگل کے روز مودی سرکار کی دو اہم اقتصادی اصلاحات نوٹ بندی اور جی ایس ٹی پر جم کر خفا ہوئے۔ نوٹ بندی کے ایک سال پورا ہونے سے ایک دن پہلے ڈاکٹر منموہن سنگھ احمد آباد میں کہا تھا کہ 8 نومبر 2016ء کو 500 اور 1000 روپے کے نوٹوں پر پابندی لگایا جانا ایک منظم لوٹ اور قانونی ڈاکہ تھا۔نوٹ بندی اور اس کے بعد گڈس اینڈ سروس ٹیکس (جی ایس ٹی) کے عمل کے طور طریقوں سے دیش کے کاروباری حلقہ میں ٹیکس دہشت کا ڈر بیٹھ گیا۔ گجرات اور احمد آباد میں اپنی پارٹی کی جانب سے منعقدہ چھوٹے اور درمیانے کاروباریوں کی کانفرنس میں انہوں نے کہا کہ اس وقت دیش میں پرائیویٹ سرمایہ کاری 25 برس میں کم از کم سطح پر آگئی ہے۔ یہ ہندوستانی معیشت کے لئے کافی خراب پوزیشن ہے۔ نوٹ بندی کو سوچے سمجھے بغیر اٹھایا گیا قدم بتاتے ہوئے سابق وزیر اعظم و جانے مانے ماہر اقتصادیات منموہن سنگھ نے دوہرایا کہ بڑی مالیت کے نوٹوں کوچلن سے باہر کرنے کی این ڈی اے سرکار کی کارروائی ایک منظم لوٹ اور قانونی ڈاکہ تھا۔انہوں نے کہا دیش میں حالات بہت خراب ہیں اور معیشت بیٹھ گئی ہے جبکہ عالمی مالی حالات مناسب تھے۔ ٹیکس دہشت کے ڈر سے سرمایہ کاری کو لیکر بھروسہ ڈگمگا گیا۔ سابق وزیر اعظم نے آگے تنقید کرتے ہوئے کہا کہ سماج کے مختلف طبقوں کے لڑکوں کی حالیہ تحریکوں سے پتہ چلتا ہے کہ گجرات کی بھاجپا سرکار کے کام کاج میں ان میں ناراضگی پائی جاتی ہے۔ گجرات میں بھاجپا پچھلے 22 سال سے مسلسل برسر اقتدار ہے۔ انہوں نے کہا صرف سورت میں 60 ہزار ہتھ کرگے بند ہوگئے ہیں۔ ہر ایک 100 کرگوں میں اگر 35 لوگوں کو روزگار چھننے کی شرح مان لی جائے تو سورت میں صرف ایک صنعت میں 21 ہزار لوگ بے روزگار ہوگئے ہیں۔ انہوں نے مرکز کی احمد آباد ۔ممبئی بلٹ ٹرین پروجیکٹ کی بھی تنقید کی اور کہا کہ یہ محض دکھاوا ہے۔ 
منموہن سنگھ نے کہا کہ سرکار نے نوٹ بندی کا جو مقصد بیان کیا وہ پورا نہیں ہوپایا اور کالا دھن رکھنے والوں کو پکڑا نہیں گیا۔ وہ لوگ بھاگ گئے۔ جی ایس ٹی نے چھوٹے کاروباریوں کی کمر توڑدی۔ جی ایس ٹی کی تعمیل کی شرائط چھوٹے کاروباریوں کے لئے برے خواب کی طرح ہے۔ عام لوگوں کو اس سے کافی پریشانی ہوئی ہے۔ منموہن سنگھ نے کہا میں فخر کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ ہم نے اپنے عہد کے دوران قریب 14 کروڑ لوگوں کو غریبی سے نکالا ہے۔ انہوں نے دو ٹوک کہا نوٹ بندی کی وجہ امیر لوگوں نے اس کی آڑ میں کالے دھن کو سفید بنالیا جبکہ سب سے زیادہ نقصان غریبوں کو ہوا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟