آخر کیا ہے یہ جان لیوا بلیووہیل گیم

کانپور کے برّا علاقہ میں ایک ٹیچر کی سوجھ بوجھ سے بلیو وہیل گیم کے جال میں پھنسے گیارھویں کلاس کے طالبعلم سشیل کمار کنوجیا کو تو بچا لیا گیا لیکن ابھی درجنوں طالبعلم اس گیم کے چنگل میں پھنسے ہوئے ہیں آخر یہ بلیو وہیل گیم کیا ہے؛ خطرناک کارناموں کے لئے نوجوان لڑکوں کو اکسانے والا آن لائن گیم ’بلیو وہیل چیلنج‘ پچھلے کافی عرصے سے بھارت میں مقبول ہے۔ تقریباً 50 دن تک چلنے والے اس کھیل میں کھلاڑی کو50 ٹاسک کرنے ہوتے ہیں، جن میں سے کئی میں خود کو نقصان پہنچتا ہے۔ اس کھیل میں کھلاڑی کو کرنا ہوتا ہے سوسائڈ یا خودکشی۔ اس پورے کھیل کے دوران کھلاڑی کو اپنے سبھی کارناموں کے ویڈیو بنا کر اس وہیل دی انسٹرکچر کو بھیجنے ہوتے ہیں جو ابھی توا سے انٹرکٹ کرتا رہا ہو۔ دنیا بھر میں اس چیلنج کی وجہ سے تقریباً 130 موتیں ہوچکی ہیں۔ بھارت میں بھی کئی لڑکے اس کے چلتے اپنی جان گنوا چکے ہیں۔ کہتے ہیں اس کھیل کی شروعات 2013 سے ہوئی تھی۔ سوشل نیٹ ورکنگ سائٹ Kontake کے ایک گروپ F-57 ،جسے دیتھ گروپ کہا جاتا تھا کی وجہ سے پہلی موت 2015 میں ہوئی۔ روس کی ایک یونیورسٹی سے باہر کئے گئے طالبعلم فلپ بدیکن نے دعوی کیا تھا کہ اس نے یہ کھیل بنایا ہے۔ اس کے مطابق اس نے ایسا اس لئے کیا کیونکہ وہ چاہتا تھا کہ سماج صاف ہوجائے اور اس کے مطابق ان لوگوں نے خودکشی کے لئے اکسا کر ایسا کیا جاسکتا ہے جن کی(اس کے مطابق ) کوئی حیثیت نہیں تھی۔ اسے نوعمرلڑکوں کو خودکشی کے لئے اکسانے کے الزام میں گرفتار کرلیا گیا۔ 11 مئی کو بدیکن کو ملزم قرار دے کر تین سال کی سزا سنائی گئی۔ بلیو وہیل کا تعلق وہیل (بڑی مچھلی) کے سوسائڈ سے ہے۔ پانی میں رہنے والے جانور بیچ پرچلے جاتے ہیں وہاں ان کی ڈی ہائیڈریشن ، اپنے خودکے وزن یا ہائی ٹائٹ کی وجہ سے موت ہوجاتی ہے۔ یہ کھیل چیلنجرز (جنہیں کھلاڑی یا امیدوار بھی بلایا جاسکتا ہے) اور پرستارو کے درمیان رشتے پر بیس ہوتا ہے۔ اس میں منتظمین کے ذریعے دئے گئے فرائض کی ایک سیریز شامل ہوتی ہے جسے کھلاڑیوں کو پورا کرنا ہوتا ہے۔ عام طور پر یومیہ ایک کام کرنا ہوتا ہے، جس میں سے کچھ خود اعتمادی سے جڑے ہوتے ہیں، کچھ کام ایڈوانس میں لیا جاسکتا ہے، اس کھیل کا آخری فیصلہ خودکشی کرنے کو کہا جاتا ہے۔ کاموں کی فہرست کو 50دنوں میں پورا کیا جانا ہوتا ہے جس میں شامل ہوتے ہیں صبح 4 بجے جاگنا،دیوار پر چڑھائی اور ایک جملہ یا تصویر شخص کے اپنے ہاتھ یا پیٹھ پر گدوانا، خود کام کرنا، ایک سوئی کو اپنے ہاتھ یا پیر پر چبھانا، ایک پل یا چھت پر کھڑاہونا، منتظمین کے ذریعے بھیجے گئے سنگیت سننا، ویڈیو دیکھنا، ان میں سے ایک سنگیت ویڈیو ناروے گلوکار ایملی نکولس کا جوش بھرا گیت اسٹریو شامل تھا۔ بھارت میں اس گیم سے متاثر ہوئے کئی معاملہ سامنے آچکے ہیں۔ 30 جولائی 2017 کو ممبئی شہر کے اندھیری مشرق میں ایک 14 سالہ لڑکے نے 7 ویں منزل سے کود کو خودکشی کرلی۔ وزیر اعلی دیویندر پھڑنویس نے اس خودکشی کے لئے بلیو وہیل کھیل کو قصوروار ٹھہرایا ہے۔ 13 اگست کو بنگال کے مغربی مدنا پور ضلع میں ایک15 سال کے لڑکے نے خودکشی کرلی۔ پولیس کو شبہ ہے کہ یہ واردات اس کھیل سے جڑی ہے۔ بھونیشور میں بلیو وہیل گیم کے تئیں بیداری و ہدایتوں کے باوجود ریاست کے نوجوان اور لڑکے گیم کھیل رہے ہیں۔ ایک ایسا ہی معاملہ چکائی گاؤں میں سامنے آیا۔ یہاں آئی ٹی آئی کا ایک طالبعلم انل بریکے بلیو وہیل گیم کے کئی راؤنڈ کھیلنے کے بعد اس میں پھنس گیا، آخر میں اسے خودکشی کرنی تھی لیکن اسے بچا لیا گیا۔ اس کا کہنا ہے کہ اس کے اسمارٹ فون سے ہائیپر لنک آیا جس سے وہ بہت خوش ہوا اور اس نے اسے اپ لوڈ کرلیا۔ جب وہ گیم کھیل رہا تھا تبھی اس کی دادی آگئی ، اس نے دیکھا کہ اس کا عام دنوں کی طرح برتاؤ نہیں ہے۔ خاندان کے دیگر افراد کودادی نے بتایا تو گھر والوں نے اس کا موبائل چھین لیا۔ تب تک وہ کلائی پر کئی کھرونچ لگا چکا تھا۔ کوٹا پور پولیس سپرنٹنڈنٹ کنور وشال نے بتایا کہ جانچ کے بعد پتہ چل پائے گا کہ بلیو وہیل گیم کے سبب ایسا ہوا ۔سولن میں بلیو وہیل کی گرفت میں اسکولی طالبعلم کے رشتے داروں نے بتایا کہ ان کا بچہ ایک پرائیویٹ اسکول میں پڑھنے جاتا تھا اور پچھلے کچھ دنوں سے وہ رات کو تاخیر سے سوتا اورصبح 4 بجے اٹھ جاتا تھا۔ اس 12 سالہ بچے کی گیم میں شامل ہونے کی جانکاری جب رشتے داروں کو ملی تو انہوں نے اس کا اس اسکول میں جانا بند کردیا۔ بچے کو جب اس کی حقیقت پتہ چلی تو وہ صدمہ میں ہے اور آہستہ آہستہ راز کھول رہا ہے۔ بات چیت پر اس نے بتایا کہ وہ تین طالبعلم ایک ساتھ اس کھیل کو کھیل رہے تھے اور اس نے اس کھیل کے دو چیپٹر کھیلے اور بازو پر بلیو وہیل کے نشان اتار لئے۔ بھارت سرکار اور تمام ریاستی حکومتوں کو چاہئے کہ وہ بلا تاخیر اس کھیل کا پردہ فاش کریں ۔ اور بلیو وہیل کو ہو سکے تو بین کریں۔ کئی دیشوں میں اس کھیل پر پابندی لگ چکی ہے۔ ماں باپ اور رشتے داروں کو خاص کر ہوشیاری برتنی ہوگی۔ بچوں کے ہاتھوں میں اسمارٹ موبائل فون جان لیوا بھی ہوسکتا ہے یہ کسی کو اندازہ بھی نہیں تھا۔ بچوں کو بچاؤ۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟