بودھوں اور روہنگیا مسلمانوں میں دشمنی کیوں شروع ہوئی

پچھلے کچھ عرصہ سے روہنگیا پناہ گزینوں کا اشو میڈیا میں چھایا ہوا ہے۔ ان روہنگیا پناہ گزینوں کو بھارت سے واپس بھیجنے کے فیصلہ پر اقوام متحدہ نے تنقید کی ہے۔حالانکہ بھارت نے اس کا زور دار طریقہ سے جواب دیا ہے۔ بھارت کے مستقل نمائندے راجیو کے چندر نے بتایا کہ قانون کی تعمیل کرنے کو کسی کے تئیں ہم کم ہمدردی کے طور پر نہیں پیش کیا جاناچاہئے۔ دوسرے دیشوں کی طرح بھارت بھی غیر قانونی پناہ گزینوں کو لے کر فکر مند ہے لیکن چندر نے صاف کہا کہ روہنگیا پناہ گزیں نہیں بلکہ ناجائزتارکین وطن ہیں۔ آخر یہ روہنگیا مسلمان اور میانمار کے بودھوں کے بیچ مسئلہ کیا ہے؟ عزم تشدد کا اصول دیگر مذاہب کے مقابلہ میں بودھ مذہب کے لئے زیادہ اہم ہے۔ بودھ بھکشو کسی کا قتل نہ کرنے کی تعلیم دیتے ہیں اس لئے سوال یہ ہے کیوں بودھ بھکشو مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلا رہے ہیں اور مشتعل بھیڑ میں شامل ہورہے ہیں؟ میانمار کی حالت باعث تشویش ہے یہاں 969 گروپ نام کی ایک انجمن مبینہ طور پر مذہبی نفرت پھیلا رہی ہے۔ اس کی قیادت اسین بیراتھو نام کے ایک بودھ بھکشو کہتے ہیں کہ انہیں مذہبی نفرت پھیلانے کے الزام میں 2003 ء میں جیل کی سزا ہوئی تھی۔ وہ 2012ء میں رہا ہوئے تھے۔ وہ خود کو میانمار کا اسامہ بن لادن بتاتے ہیں۔ 2013ء میں میکٹیلا قصبہ کے مسلمانوں پر مشتعل بھیڑ کے حملہ میں 40 لوگوں کی موت ہوگئی تھی۔ تشدد کی شروعات سونے کی ایک دوکان سے ہوئی تھی۔ دونوں ملکوں میں ہوئے تشدد (میانمار اور سری لنکا) اقتصادی وسائل کونشانہ بنایا گیا۔ یہاں اکثریتیوں کی توقعات کے لئے مذہبی اقلیتوں کو بلی کا بکرا بنایا گیا۔ 2013 میں ہی رنگون کے نارتھ میں واقع بھوکسن میں ایک مسلمان لڑکی کی سائیکل ایک بودھ بھکشو سے ٹکرا گئی تھی اس کے بعد بھڑکے تشدد میں قہر برپا کررہے بودھوں نے مسجد پر حملے کئے تھے اور قریب 70 گھروں میں آگ لگادی تھی۔ اس حملہ میں ایک شخص کی موت ہوگئی تھی اور دیگر 9 زخمی ہوئے تھے۔ دھرم کے راجہ کی شکل میں جانے جانے والے میانمار کے حکمراں بودھ دھرم کے اصولوں کی بنیاد پر جنگ کو جائز ٹھہراتے ہیں۔ جاپان میں بھی بہت سے سمورائی بودھ دھرم کے زین مت کو مانتے ہیں۔وہ کئی طرح کے تشدد کو جائز ٹھہراتے ہیں۔ وہ ایک شخص کے قتل کو بھی بدلے کی کارروائی بتاتے ہیں۔ اسی طرح کی دلیلیں دوسری جنگ عظیم میں بھی دی گئی تھیں۔ سری لنکا اور برما میں پنپنے راشٹرواد کی تحریکوں میں بودھ دھرم نے ایک اہم ترین کردار نبھایا اور برطانوی سامراج کو اکھاڑ پھینکنے کی اپیل کی۔ بعد میں تشدد بھڑک گیا۔ رنگون میں 1929ء میں بودھ بھکشوؤں نے چار گورو کو قتل کردیا تھا۔ سری لنکا میں 1983ء میں پھیلی نسلی کشیدگی خانہ جنگی میں بدل گئی۔ اس دوران سری لنکائی مسلمانوں کے خلاف تشدد کی کمان تمل باغیوں نے سنبھال لی تھی۔ برما میں بودھ بھکشوؤں نے فوجی حکومت کو چنوتی دینے کے لئے اپنی اخلاقی حکمرانی کا استعمال کیا اور 2007ء میں جمہوریت کی مانگ کی۔ اس وقت پر امن مظاہروں میں کئی بودھ بھکشوؤں کی جان گئی۔ آج کل کچھ بودھ بھکشو اپنی اخلاقی حکمرانی کا استعمال بالکل الگ طریقے سے کررہے ہیں۔ وہ اقلیت ہو سکتے ہیں لیکن ایسے بودھ بھکشوہزاروں کی تعداد میں ہیں جو خود کو اینگری ینگ مین مانتے ہیں۔ دونوں دیشوں میں حکومت کررہیں پارٹیاں اور بودھ بھکشوؤں کے درمیان کا رشتہ ابھی صاف نہیں ہے۔ جموں میں رہ رہے روہنگیا مسلمانوں کی طرف سے سپریم کورٹ عرضی دائر کر مرکزی سرکار کی طرف سے انہیں میانمار واپس بھیجنے کے فیصلہ کو چنوتی دی گئی ہے۔ اس سے پہلے بھی ایسی عرضی دائر ہوچکی ہے۔ عرضی گزار نے درخواست کی ہے کہ اس معاملہ میں ان کا موقف بھی سنا جائے۔ معلوم ہو کہ ماضی گذشتہ میں دائر عرضی میں بین الاقوامی انسانی حقوق معاہدوں کی خلاف ورزی سمیت کئی بنیاد بتاتے ہوئے سرکار کے فیصلہ کو چنوتی دی گئی ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟