ہندوستانی جیلوں میں بدنظمی اور غیر انسانی حالات

ہندوستانی جیلوں میں بدنظمی اور بندشوں کے ساتھ غیر انسانی برتاؤ پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے عزت مآب سپریم کورٹ نے ایک بار پھر جیلوں میں بہتری لانے پر توجہ دی ہے اور اس سلسلے میں 11 نکاتی گائڈ لائنس بھی جاری کی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی عزت مآب عدالت نے جیلوں کے ساتھ ساتھ بچہ گھروں میں بھی اچانک اموات کے شکار قیدیوں کے رشتہ داروں کو مناسب معاوضہ دینے کی بھی ہدایت دی ہے۔ یہ سوال اس لئے کیونکہ سپریم کورٹ نے 2006ء میں پولیس اصلاحات کو لیکر جو 7 نکاتی شرائط ہدایت نامہ جاری کئے تھے ان کو کل ملاکر نظر انداز کیا گیا ہے۔ عدالت نے کہا کہ سبھی ہائی کورٹ 2012 سے2015 کے درمیان جیلوں میں ہوئی غیرفطری اموات کا نوٹس لیتے ہوئے خود مفاد عامہ کی عرضی درج کریں اور اس کے لئے معاوضے کا بھی انتظام کریں۔ قیدیوں خاص کر پہلی بار جرم کرنے والوں سے رائے مشورہ کے لئے کونسلر اور معاون ملازمین مقرر کئے جائیں۔ خاتون و اطفال ترقی وزارت کو بھی عدالت نے ہدایت دی ہے کہ حراست یا نگرانی میں رکھے گئے بچوں کی ہوئی غیر فطری اموات کی فہرست تیار کریں اور ان کے لئے متعلقہ ریاستی سرکاروں سے تبادلہ خیال کریں۔ جیل میں پیدا غیر فطری حالات میں بہتری کے قدم کئے اٹھائے جائیں۔ پہلے بھی کئی موقعوں پر جیل اصلاحات کی مانگ ہوتی رہی ہے مگر اس سمت میں قابل قدر قدم ابھی تک نہیں اٹھائے جاسکے۔ ایسے میں سپریم کورٹ کے تازہ حکم کی کہاں تک تعمیل ہوپائے گی، یہ دیکھنے کی بات ہے۔ سبھی جانتے ہیں جیلوں میں ان کی رکھنے کی صلاحیت سے کہیں زیادہ قیدی رکھے گئے ہیں۔ اس کے چلتے جیلوں میں نظم بنائے رکھنا آسان کام نہیں ہے۔ آئے دن قیدیوں میں و مختلف گروپوں میں خونی جھگڑے ہوتے رہتے ہیں۔ دہلی کی سب سے محفوظ مانی جانے والی تہاڑ جیل میں دو دن پہلے بھی قیدیوں کے دو گروپوں میں جم کر خونی جھڑپیں ہوئیں۔ تعینات پولیس ٹیم کے علاوہ ایڈیشنل پولیس فورس کو بلانا پڑا۔ حالات پر قابو پانے کیلئے جیل حکام اور سکیورٹی عملہ کو کافی مشقت کرنی پڑی۔ لیکن غوصے میں آگ بگولہ قیدیوں نے ان پر حملہ بول دیا۔ اس دوران کئی قیدی بھی زخمی ہوگئے ساتھ ہی جیل کے پولیس والے بھی زخمی ہوگئے۔ جیلوں میں رہائش کی صلاحیت سے زیادہ قیدیوں کی وجہ سے قیدیوں کے انسانی حقوق کی خلاف ورزی تو ہوتی ہی ہے ساتھ ساتھ ان کی صحت ،غذا اور طبی سہولت وغیرہ پر کوئی باقاعدہ توجہ نہ دئے جانے یا پھر ان کے ساتھ غیر انسانی برتاؤ کے چلتے اکثر کئی غیر فطری موت کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ان اموات کو عام طور پر نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ جیلوں میں قیدیوں کے بڑھتے بوجھ کی ایک بڑی وجہ مقدموں کا لمبے عرصے تک لٹکے رہنا بھی ہے۔ جیلوں میں بند تقریباً آدھے سے زیادہ قیدی ایسے ہیں جن پر بہت معمولی جرائم کے الزام ہیں اوسزا سے زیادہ وقت تک جیلوں میں بطور انڈر ٹرائل وقت بتا دیتے ہیں۔ بہت سارے زیرسماعت قیدی فیصلے کے انتظار میں سلاخوں کے پیچھے رہنے کو مجبور ہیں۔ بہت سے ایسے ہوتے ہیں جنہیں معمولی جرمانہ لگا کر بری کیا جاسکتا ہے لیکن زیر سماعت قیدی کی شکل میں جیل کی سزا بھگتنے کو مجبور ہیں۔ ہندوستانی جیلوں کی حالت یہ ہے کہ جب کسی قیدی کو بیرونی ملک سے حوالگی کرانے کی کوشش کی جاتی ہے تو اس کے وکیل اس دلیلکی آڑ میں کہ ہندوستانی جیلوں میں انتظامات بہت ہی غیرا انسانی ہیں، کیا یہ کسی سے چھپا ہے، کیرل کے مچھیروں کے قتل کے ملزم اٹلی کے بحری فوجیوں کو لیکر وجے مالیا تک کہ وکیل ایسی دلیلیں دے چکے ہیں۔ سپریم کورٹ کا یہ کہنا بالکل صحیح ہے کہ جیلوں میں ضرورت سے زیادہ قیدی تو ہیں لیکن وہاں درکار ملازم نہیں ہیں۔ اچھا ہوگا سپریم کورٹ یہ بھی محسوس کرے کہ جوڈیشیری میں اصلاحات کی طرف بڑھنے اور عدالتوں کو مقدموں کے بوجھ سے بری طرح حاوی عدلیہ کے نظام میں بہتری لانے کا وقت آگیا ہے۔ اگر مقدموں کا نپٹارہ جلد ہوتو زیر سماعت قیدیوں کی تعداد اپنے آپ کم ہوجائے گی اور جب ان کی تعداد کم ہوگی تو جیلوں میں قیدیوں کی تعداد بھی گھٹ جائے گی۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟