کئی معنوں میں تاریخی ہے مودی کا ایران دورہ

وزیر اعظم نریندر مودی کا ایران دورہ بیحد کامیاب رہا۔بھارت اور ایران کے درمیان سمجھوتہ ہماری ڈپلومیسی میں ایک نیا باب جوڑنے والے ہیں۔ بھارت اور ایران نے آتنک واد ، شدت پسندی اور سائبر اسپیس سے مل کر سوموار کو نپٹنے کا فیصلہ کیا۔ وزیر اعظم کے ایران دورہ کے دوران ہوا چاہ بہاربندرگاہ کو ترقی دینے سے متعلق سمجھوتہ دوطرفہ تعلقات کے لحاظ سے ہی نہیں بلکہ سیاسی حکمت عملی کے طور پر بھی بیحد اہم ہے۔ یہ چین کے ذریعے پاکستان میں گوادر بندرگاہ سے ہوکر بنائے جارہے بھاری بھرکم معاشی گلیارے کا جواب ہو یا نہ ہو اس سے افغانستان تک پہنچنے کیلئے بھارت کو پاکستان پر نربھر رہنے کی ضرورت پوری طرح سے ختم ہوجائے گی۔اس طرح بھارت سیدھے وسطی ایشیا اور روس تک بھی اپنی پہنچ بنا سکے گا۔ امریکہ کے ترچھے تیور کے باوجود وزیر اعظم نریندر مودی کا ایران دورہ اس بات کا بھی اشارہ ہے کہ ہم دھیرے دھیرے آزادانہ سوچ پر مبنی ایک متوازن ڈپلومیسی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ یہ کسی سے چھپا نہیں ہے کہ گذشتہ کچھ سالوں میں ہماری سیاست پر امریکی اثر بہت کچھ زیادہ ہی گہرا دکھائی دینے لگا تھا۔ بھارت کے ساتھ ایران کے رشتے ہمیشہ سے اچھے رہے ہیں لیکن اب اسے اور زیادہ ٹھوس شکل دینی ہوگی۔ اٹل بہاری واجپئی کے عہد میں 2003ء میں چاہ بہار کو ڈیولپ کرنے پر اتفاق ہوا تھا جس کے تحت بھارت نے افغانستان کو اس سے جوڑنے والی سڑک کی تعمیر بھی کی ہے۔ مگر ایران کے الگ تھلگ پڑنے کے بعد سے یہ پروجیکٹ بھی سست پڑ گیا تھا۔ دوسری جانب بھارت لمبے وقت سے ایران اور پاکستان سے ہوکر گیس پائپ لائن لانے کی کوشش کررہا تھا مگر اب تک یہ پروجیکٹ سرے نہیں چڑھ سکا ہے۔ گزشتہ مہینے بھارت میں ایران کے سفیر نے تو سمندر کے اندر سے ہوکر مجوزہ2700 کلو میٹر لمبے اس پروجیکٹ کو ایک طرح سے دفن ہونے کا اشارہ بھی کردیا۔ایران اپنے اٹامک پروگرام کی وجہ سے بین الاقوامی سطح پر الگ تھلگ پڑ جانے کا دورہ ختم ہونے کے بعد سے ایران کا سارا زور اب اپنی معاشیات کو رفتار دینے اور اپنا ڈپلومیٹک الگاؤواد ختم کرنے پر ہے۔ چونکہ بھارت سے اس کے رشتے ہمیشہ سے اچھے رہے ہیں لیکن اب وہ انہیں زیادہ ٹھوس شکل دینا چاہتا ہے۔ ایران سے ہوئے مختلف سمجھوتوں میں چاہ بہار سمجھوتہ اس لئے بھی اہم ہے کیونکہ اس کے ذریعے ہم نے گوادر پورٹ کے ارد گرد جاری چین اور پاکستان کے نئے ڈپلومیٹک کھیل کو کرارا جواب دیا ہے۔ دراصل چین کی طرف سے پاکستان میں یہ بندرگاہ اس کے دور رس مفاد کو دھیان میں رکھ کر بنائی جارہی ہے۔ اس پورٹ کے پیچھے چین کا مقصد ہند مہا ساگر میں سیدھی نکاسی کے علاوہ کھاڑی علاقہ میں اپنا اثر بڑھانا ہے لیکن اب گوادر کے ٹھیک بغل میں چاہ بہار بندرگاہ بھی کھڑی ہوگی۔ابھی پاکستان و چین اس میں اڑنگا لگا رہے تھے۔ دونوں ہی نہیں چاہتے کہ اس علاقے میں بھارت مضبوط ہو لیکن چاہ بہار بندرگاہ سے چین سمیت کئی بڑی طاقتوں کے ڈپلومیٹک حکمت عملی پلٹ سکتے ہیں۔ وزیر اعظم نریندر مودی اور ایرانی راشٹرپتی حسن روحانی کی موجودگی میں قریب ایک درجن قرار ناموں پر دستخط ہوئے ہیں جن میں بھارتیہ تعاون سے یوریا اور ایک الیمونیم پلانٹ کی تعمیر بھی شامل ہے۔ خود وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا کہ چاہ بہار بندگاہ اور اس سے جڑے بنیادی ڈھانچے سے متعلق قرار تاریخی حصولیابی ہے۔ اس سے اس علاقہ میں معاشی ترقی کو بڑھاوا ملے گا۔ ہم ان سمجھوتوں کو جلد عملی شکل میں لانے کے لئے پر عہد ہیں۔ ایران کے صدر حسن روحانی نے کہا ایران کے لوگوں کے لئے یہ بہت اہم دن ہے۔ آج ایران۔ بھارت اور افغانستان کے بیچ تعاون کا ایک نیا باب شروع ہوگیا ہے۔ 23 مئی کو اب ہر سال’’ چاہ بہار دوس‘‘ کی شکل میں منایا جائے گا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟