دہلی میں جنگل راج: ہائی کورٹ کے سخت ریمارکس

جو تبصرہ بہار کے سلسلے میں کبھی پٹنہ ہائی کورٹ نے کیا تھا ویسے ہی ریمارکس دہلی ہائی کورٹ نے راجدھانی دہلی کے بارے میں دئے ہیں۔ دہلی میں خواتین کی سلامتی کو لیکر جاری سماعت کے دوران دہلی ہائی کورٹ نے مرکز اور دہلی حکومت پر سخت رائے زنی کی۔ ہائی کورٹ نے کہا یہ حالات جو جنگل راج والے ہیں ایسے میں کوئی بھی چاہے کچھ بھی کر سکتا ہے۔ عدالت ہذا نے کہا کہ راجدھانی میں جرائم پر قابو پانے کے لئے دہلی پولیس نے فاضل پولیس فورس کی تقرری وزارت داخلہ کررہی ہے اور وزارت مالیات منع کررہی ہے۔ ایسے میں ہم جاننا چاہتے ہیں ایسے میں ہم جاننا چاہتے ہیں کہ حکومت کا رخ کیا ہے؟ اس پر مرکزی حکومت کی جانب سے وکیل نے کہا کہ اس بارے میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جو جلد ہی اپنی رپورٹ سونپے گی۔ عدالت نے کہا دہلی پولیس کے مطابق قریب 11 ہزار نمونے جانچ کے لئے فورنسک لیب میں رکھے ہوئے ہیں۔ اس سے چھان بین متاثر ہوگی۔ اسے لیکر کوئی (مرکز اور دہلی حکومت) بھی سنجیدہ نہیں ہے۔ کیا آپ (مرکز کے وکیل) یہ چاہتے ہیں کہ ہم کہیں کہ دیش کی حکومت کو دہلی کے لوگوں کی سلامتی کی کوئی فکر نہیں ہے؟ ہم آپ کو نرمی کیساتھ یہ بتا رہے ہیں لیکن آپ کو سمجھ میں نہیں آرہا ہے۔ ہائی کورٹ نے اس سے پہلے دہلی پولیس میں نئے جوانوں کی بھرتی کا حکم جاری کیا تھا لیکن اس پر مرکز کی جانب سے کورٹ کو بتایا گیا کہ اس معاملے میں جو بھی کرنا ہے وہ وزارت مالیات کو کرنا ہے۔ جسٹس بی ڈی احمد، سنجیو سچدیو کی بنچ اس پر بھی بھڑک گئی، کہا کہ آپ اس معاملے میں صاف تجویز لے کر آئیں۔ ہم کب تک آپ کا انتظار کریں گے؟ آپ کے پاس اگر پیسہ نہیں ہے تو آپ بتائیے ہم کیس بند کردیں گے۔ راجدھانی میں جرائم رکنے کا نام نہیں لے رہے ہیں۔ خاص کر خواتین اور بزرگوں کے تئیں جرم بڑھتے جارہے ہیں۔ اسی حالت میں نربھیا کانڈ کے بعد عدالت نے خود نوٹس لیتے ہوئے خواتین سلامتی کے اشو پر کارروائی شروع کی تھی۔ کچھ حد تک بہتری آئی بھی لیکن بعد میں اس کی سنجیدگی کو اقتدار اعلی نے عمل کی سطح پر ہی بند کردیا۔ یہاں تک مہلا سکیورٹی کے نمبر اور100 نمبر کو بھی عام آدمی کی طرف سے لے کر جج صاحبان تک نے بے جواب پایا۔ ایک طرف غیر جوابدہی کی یہ حد تو دوسری طرف دہلی پولیس میں ہزاروں اسامیاں خالی پڑی ہیں۔ دراصل پٹنہ ہائی کورٹ نے قریب15 سال پہلے بہار میں قانون و نظم کے بگڑتے حالات کے تجزیئے کے بعد ہی وہاں جنگل راج سے تشبیہ دی تھی۔ اس کے بعد تو بہار میں قانون و نظام بگڑنے کی چھوٹی سے چھوٹی واردات کے بعد کوئی بھی جنگل راج لوٹنے کی بات کہہ دیتا ہے۔ مانو جنگل راج بہار کی علامت بن چکا ہے لیکن دہلی اس تشبیہ کے ساتھ نہیں چل سکتی۔ اس کو لا اینڈ آرڈر کے حالات کو بہتر بنانا ہی ہوگا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟