تاکہ جہیز انسداد قانون اذیت رکے، بیجا استعمال رکے
یہ اچھی بات ہے کہ مودی حکومت جہیز انسداد قانون میں کچھ ضروری ترمیم کرنے پر غور کررہی ہے۔ یہ وقت کا مطالبہ ہے۔ جب جہیز انسداد قانون بنا تھا تو اس کے پیچھے جہیز کے لالچیوں کو سخت قانون بنا کر بیویوں کو جو مارنے کا سلسلہ چل پڑا تھا اسے روکنا مقصد تھا۔جہیز سے وابستہ قتل تو رکے نہیں لیکن اس قانون کا وسیع پیمانے پر بیجا استعمال ہونا شروع ہوگا۔ فرضی شکایات کے چلتے جہیزاذیت انسداد قانون کے بڑھتے معاملوں کو دیکھتے ہوئے حکومت اس میں ترمیم کرنے جارہی ہے۔ اس سے جہیز ٹارچر انسداد قانون کا بیجا استعمال بند ہوسکے گا اور بے وجہ کوئی جیل نہیں بھیجا جائے گا۔ آپ اگر تہاڑ جیل جائیں تو وہاں پائیں گے جہیز اذیت انسداد قانون کے تحت درجنوں مرد اور عورتیں ، بزرگ بند ہیں ساتھ ہی مقدمے کے دوران میاں بیوی میں سمجھوتے کے ذریعے مسئلے کے حل کا متبادل مہیا کرایا جائے گا۔ ویسے تو اس قانون میں تبدیلی کی پہل تبھی شروع ہوجانی چاہئے تھی جب سپریم کورٹ نے اپنے ایک فیصلے میں صاف طور سے یہ کہا تھا کہ یہ قانون غصے والی خواتین کے ہاتھوں میں ایک ہتھیار کی طرح ہے۔ اس کے علاوہ یہ بھی کسی سے پوشیدہ نہیں رہ گیا تھا کہ اس قانون کا وسیع پیمانے پر بیجا استعمال ہورہا ہے۔ وزارت داخلہ کے مطابق مرکزی کیبنٹ کی منظوری کیلئے دفعہ498A میں ترمیم کا ڈرافٹ نوٹ تیار کیا گیا ہے۔ آئینی کمیشن و جسٹس ملت کمیٹی کی تجویز کے مطابق عدالت کی رضامندی سے ایسے معاملوں میں سمجھوتہ ہوسکے گا۔ترمیمی بل کا ڈرافٹ تیار کر کیبنٹ کو بھیجے گا۔ اس کرائم کو معاہدہ لائق بنا دیا جائے تو شوہر اور اس کے رشتے داروں کے خلاف جہیز اذیت کے جھوٹے الزامات کے معاملوں میں زبردست کمی آسکتی ہے۔ فی الحال جہیز اذیت انسداد قانون غیر ضمانتی ہے اور اس میں سمجھوتے کی اجازت نہیں ہے۔ ملزم کی فوری گرفتاری ہوتی ہے۔ جھگڑالو فریقین کے درمیان دوبارہ ملن کی کوئی گنجائش نہیں رہتی۔ قصوروار کو تین برس تک کی جیل کی سہولت ہے۔ مجوزہ ترامیم کے مطابق جہیز اذیت کا کیس جھوٹا پائے جانے پر 15 ہزار روپے جرمانہ لگے گا۔ ابھی یہ 1 ہزار روپے ہے۔ جرمانہ ادا کردینے کے بعد کسی ملزم کو جیل جانے سے چھوٹ مل جائے گی اور عدالت کی اجازت سے سمجھوتہ ہونے پر بیوی یا سسرالی فریقین اس پر عمل کرنے پر مجبور ہوں گے۔ اس قانون میں جہاں ضروری ترمیم ضروری ہے وہیں یہ بھی خیال رکھنا ہوگا کہ جہیز ابھی بھی ایک بڑی سماجی برائی بنا ہوا ہے اور لوگوں کے درمیان ایسا پیغام نہیں جانا چاہئے کہ جہیز مانگنے یا اس کے نام پر خواتین کا ٹارچر کرنے والوں کے تئیں کسی طرح کی نرمی برتی جائے گی۔ اس کے ساتھ ہی یہ بھی ضروری ہے کہ اس قانون کا جس آسانی کے ساتھ بیجا استعمال ہوتا ہے اس کے انسداد کیلئے بھی موثر قدم اٹھائے جائیں۔ بہت سے ایسے معاملے سامنے آئے ہیں جن میں عورتوں نے شوہر اور سسرال والوں کو تنگ کرنے کیلئے جہیز انسداد قانون کا سہارا لیا ہے۔ جہیز قانون اپنی موجودہ شکل میں ایک ٹارچر قانون بن گیا ہے جس میں انصاف تو کم نا انصافی زیادہ ہورہی ہے۔ اس میں ترمیم انتہائی ضروری ہے۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں