ٹیم انڈیا کے کپتان کول دھونی کا ٹیسٹ کرکٹ سے سنیاس!

کہا جاتا ہے کہ کرکٹ بے یقینی کا کھیل ہے اور جس طرح ٹیم انڈیا کے کیپٹن کول مہندر سنگھ دھونی نے ٹیسٹ سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کیا ہے یہ ثابت کرتا ہے۔ ہندوستانی کرکٹ کی تاریخ کے سب سے کامیاب ٹیسٹ کپتان مہندر سنگھ دھونی نے منگل کی شام ٹیسٹ کرکٹ سے سنیاس لینے کا اعلان کرکے اپنے پرستاروں کو ہی نہیں بلکہ خود کے ساتھی کھلاڑیوں اور بی سی سی آئی کو حیران کردیا ہے۔ کسی میچ میں ٹیم انڈیا جب جیت کی دہلیز پر پہنچتی تھی تب ناظرین کو بس ایک ہی چیز کا انتظار رہتا تھا کہ کپتان دھونی کامیابی دلانے والاشاندار شاٹلگائیں ۔6 برسوں سے بھارت کا یہ نوجوان جارحانہ کرکٹ پیڑھی کا چہرہ بن کر چمکتا رہا۔ ٹیم انڈیا کے برے وقت میں مہندر سنگھ دھونی کا ریٹائرمنٹ لینا حیرت میں ڈالنے والا فیصلہ کہا جائے گا۔ کسی کو یہ توقع بھی نہیں تھی کہ وہ اچانک اس طرح ٹیم کو چھوڑ جائیں گے۔بیشک تیسرے ٹیسٹ میچ کے بعد ٹیم انڈیا پر آئی مشکل کو دھونی دور کر لے گئے تھے لیکن دو کامیابیوں کے ساتھ آسٹریلیا باقاعدہ چار میچوں کی یہ سیریز جیت چکا ہے اور بچا ہوا ایک میچ تو محض خانہ پوری کا رہ گیا ہے۔ کیا یہ بہتر نہیں ہوتا کہ آخری میچ کی خانہ پوری ہونے تک مہندر سنگھ دھونی اپنی ٹیم کے ساتھ اپنے کھیل کو شیئر کرتے؟ آج سبھی قیاس آرائیاں لگانے میں لگے ہوئے ہیں کہ دھونی نے سنیاس لینے کا آخر فیصلہ کیوں کیا؟ بدائی کی 6 ممکنہ وجہ ہو سکتی ہیں۔ دھونی نے ٹیم کے ساتھیوں کے سامنے دی جذباتی تقریر میں بتایا کہ وہ ٹیم پر بوجھ نہیں بننا چاہتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ تینوں فورمیٹ ٹیسٹ (ٹیسٹ ، ونڈے اور ٹی ٹوئنٹی) میں کھیلنا ان کے لئے مشکل ہورہا تھا۔ تیسری وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ دھونی کی کپتانی میں ٹیم نے بیرونی ممالک میں 30 ٹیسٹ میچ کھیلے جن میں محض6 میں ہی کامیابی ملی اور15 ہار گئے۔ پچھلے کچھ عرصے سے دھونی اچھی بلے بازی بھی نہیں کرپائے اور لمبے وقت سے واپسی کیلئے جدوجہد کرتے دکھائی دئے۔ پانچویں وجہ تذکرہ یہ ہے کہ ٹیم میں وراٹ کوہلی کے بڑھتے قد نے بھی مہندر سنگھ دھونی کو ریٹائرمنٹ لینے کیلئے مجبور کیا ہوگا اور باقی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ آئی پی ایل اسپاٹ فکسنگ میں بار بار نام آنے سے دھونی کی ساکھ تھوڑی خراب ہوئی ہے۔ وہ چنئی سپرکنگ کی کپتانی بھی چھوڑنے تجویز رکھ چکے ہیں۔ دھونی ابھی 33 سال کے ہیں اور بڑھتی عمر کے ساتھ عموماً کرکٹر ونڈے جیسے چھوٹے فارمیٹ والے کھیل سے سنیاس لے لیتا ہے تاکہ ٹیسٹ کرکٹ کھیل سکے اس کے باوجود یہ کہنا ہوگا کہ رانچی جیسے چھوٹے سے شہر اور بیحد معمولی بیک گراؤنڈ سے نکل کر ہندوستانی ٹیم کا کپتان بننے تک کا سفر نوجوان کھلاڑیوں کیلئے ایک مشعل راہ رہا ہے وہ اس وقت ٹیم انڈیا سے جڑے جب ٹیم میں سچن تندولکر، سورو گانگولی، راہل دراوڑ اور وی وی ایس لکشمن اور انل کمبلے جیسے سرکردہ کھلاڑیوں کے ساتھ ہی ویریندر سہواگ جیسے بہترین کھلاڑی کی موجودگی تھی اس کے باوجود کم وقت میں ہی دھونی نے نہ صرف اپنی جگہ بنائی بلکہ جلد ہی سلیکٹروں کا بھروسہ حاصل کرنے میں بھی کامیاب رہے۔ حقیقت میں ایک روزہ اور ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ دلانے جیسی ان کے شاندار کارناموں کو ٹیسٹ میچوں میں د لائی گئی سب سے زیادہ کامیابیوں سے جوڑ کر دیکھیں تو دھونی کا کوئی سانی نہیں دکھائی دیتا۔ بیشک سورو گانگولی نے ٹیم انڈیا میں لڑنے کا جذبہ پیدا کیا مگر یہ دھونی ہی تھے جن کی رہنمائی میں ٹیم انڈیا نمبر ون ٹیسٹ ٹیم بن سکی۔ لیکن آئی پی ایل کرکٹ فکسنگ تنازعوں میں پچھلے دنوں سپریم کورٹ میں جب متنازعہ بی سی سی آئی چیئرمین سرینواسن پر فکسنگ کے الزام کھل کر لگے ساتھ ساتھ دھونی کا نام بھی اچھالا گیا تبھی سے اندیشہ ظاہر ہونے لگا تھا لیکن دھونی فکسنگ کے الزام کو تو کھل کر نہیں بلکہ اس کے اثر میں آنے والے اندیشات پر گہرائی سے غور کرتے تھے۔ آخر کار وہ سرینواسن کی ہی کمپنی میں سینئر افسر تھے اور انہی کی ٹیم کی کپتانی سنبھال رہے تھے۔ کرکٹ نمبروں کا کھیل ہے اور پچھلے کچھ برسوں کے نمبر بتاتے ہیں کہ دھونی ٹیم میں وہ جذبہ پیدا نہیں کرپارہے تھے جس سے کامیابی ملتی۔ لگتا ہے کہ اب ٹیم انڈیا کی ٹیسٹوں میں وراٹ کوہلی کپتانی سنبھالیں گے۔ بیشک کوہلی کی شکل میں ٹیم انڈیا کو دھونی کا جانشین ضرور مل گیا ہے مگر میدان میں مہندر سنگھ دھونی اور کپتان کول کی کمی ضرور محسوس ہوگی۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟