نیروبی حملے میں برطانوی و امریکی دہشت گرد؟

کینیا کی راجدھانی نیروبی میں ممبئی جیسا دہشت گردانہ حملہ منگلوار کو چوتھے دن بھی نہیں ختم ہوپایا۔ پیر کو کینیا کے صدر اوہوروکے یوہوٹا نے کہا تھا کہ سبھی بندوقچی مار دئے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا تھا کہ ویسٹ گیٹ مال کو دہشت گردوں سے آزادکرایالیاگیا ہے۔ مال پر فوج نے اپنا کنٹرول کرلیا ہے لیکن منگلوار کو مال میں پھر سے دھماکے سنائی دئے ہیں۔ دہشت گرد تنظیم الشباب نے دعوی کیا ہے کہ ابھی اس کے پاس کچھ یرغمال ہیں لیکن وہ پوری طرح سے محفوظ ہیں۔ تنظیم نے دھمکی دی ہے کہ جب تک کینیا صومالیہ سے اپنی فوجیں نہیں ہٹا لیتا اس کے حملے جاری رہیں گے۔ تنظیم نے کینیا کے حکام کے دعوے کو غلط بتاتے ہوئے کہا کہ اس حملے میں کوئی امریکی یا برطانوی شامل نہیں ہیں۔ اس سے پہلے کہا گیا تھا پانچ امریکی اور برطانوی وائٹ ونڈو اس حملے میں شامل رہے ہیں۔کینیا کی وزیر خارجہ آمنہ محمد نے بتایا کہ حملہ آور امریکہ سے آئے تھے اور وہ بنیادی طور پر امریکی صوبے سینیٹا اور میسوری سے تعلق رکھتے تھے۔ مال سے بچ کر بھاگے لوگوں میںآتنکی بھی ہیں اور 65 لوگوں کی ابھی تلاش ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ یا تو وہ محفوظ نکل گئے ہیں یا پھر مال کی پانچویں منزل میں کہیں چھپے ہوئے ہیں۔ نیروبی کے ایم پی شاہ ہسپتال کے ٹراما سینٹر میں زخمی لوزیانا کے ڈاکٹر منوندر چوبیسی گھنٹوں زخمیوں کی جان بچانے میں لگے رہے۔ اس حملے میں مرنے والوں کی تعداد62 تک پہنچ چکی ہے جس میں تین ہندوستانی بھی شامل ہیں۔ حملے کے فوراً بعد الشباب نے ٹوئٹر پر حملوں میں شامل 9 لوگوں کی فہرست جاری کی تھی۔ اس میں تین امریکی، دو صومالیائی اور ایک برطانوی شہری ہے۔ کینیڈا اور فن لینڈ کا بھی ایک دہشت گرد فہرست میں شامل تھا۔
سی این این کی خبر کے مطابق امریکی حکومت اس بات کی جانچ کررہی ہے کہ حملہ آوروں میں امریکی شہری کے شامل ہونے کی بات کس حد تک صحیح ہے۔ متعلقہ حکام اور صومالیائی نژادامریکی لیڈروں نے کہا کہ الشباب نے افریقہ میں لڑنے کے لئے امریکہ کے منی پولس شہر سے لڑکوں کی بھرتی کی ہے۔ ایک دلچسپ بات یہ سامنے آئی ہے کہ حملوں کی پلاننگ میں ایک برطانوی خاتون کے شامل ہونے کا شبہ ہے۔ ذرائع کے مطابق2005ء میں لندن ٹرانسپورٹ سسٹم پر حملہ کرنے کے دوران مارے گئے برطانوی شخص کی بیوہ کے اس میں شامل ہونے کے بھی اشارے ہیں۔ مال کے اندر سے ویڈیو سے پتہ چلتا ہے کہ ایک عورت بھی حملہ آوروں میں شامل تھی حالانکہ کینیا کے وزیر داخلہ جوزف اولے لینکو نے اس سے انکارکرتے ہوئے کہا کہ سبھی حملہ آور مرد تھے اور ہوسکتا ہے کہ کچھ حملہ آور عورتوں کے کپڑے پہنے ہوں۔ القاعدہ سرغنہ اسامہ بن لادن کو امریکہ کے ذریعے پاکستان کے شہر ایبٹ آباد مارے جانے کے بعد مانا جارہا تھا کہ دنیا کی یہ سب سے خطرناک دہشت گرد تنظیم القاعدہ کمزور پڑ جائے گی لیکن القاعدہ آج پہلے سے بھی زیادہ خوفناک شکل میں سامنے آئی ہے۔ اس کی الگ الگ تنظیمیں دنیا کے الگ الگ حصوں میں خوف کی علامت بنی ہوئی ہیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟