مہلا کی عزت کے تئیں سماج کی مجرمانہ بے رخی


نیشنل کرائم بیورو کے تازہ اعدادو شمار چونکانے والے ہیں۔ آبروریزی جیسے گھناؤنے جرائم میں پچھلے سال 29.27 فیصدی اضافہ ہوا ہے۔ ریکارڈ کے مطابق یومیہ 50 عورتوں سے ملک بھر میں آبروریزی کے واقعات ہوتے ہیں۔ غور کرنے والی بات یہ ہے کہ اعدادو شمار سرکاری رپورٹ کے مطابق ہیں لیکن بہت سے ایسے معاملے ہیں جو دبادئے جاتے ہیںیا بدنامی کے ڈر سے ان کی شکایت نہیں ہوتی۔ آبروریزی کی شکار لڑکیوں کی کیا دردشا ہوتی ہے گذشتہ دنوں دہلی ہائی کورٹ کے باہر ایک آبروریزی کا شکار عورت نے خودکشی کی کوشش کی۔ خاتون ملزمان کی دھمکی اور اپنے شوہر سے پریشان تھی۔ واردات کے وقت وہ معاملے کی سماعت کے لئے عدالت آئی ہوئی تھی۔ سنیتا(نام تبدیل) پانی پت میں خاندان کے ساتھ رہا کرتی تھی۔ بتایا جاتا ہے 2011ء میں کسی نے نوکری دلانے کا وعدہ کرکے انٹرویو کے لئے بلایا تھا۔ عورت انٹرویو کے لئے آئی تو پرمجیت نام کے ایک شخص نے اسے نشیلی چیز پلا کر اس سے آبروریزی کی۔ عورت کی شکایت پر پولیس نے معامہ درج کر ملزم کو جیل بھیج دیا۔ عورت کا الزام ہے کہ اس کے بعد اس کے شوہر نے بھی اسے چھوڑدیا لیکن عورت نے ملزم کو سزا دلانے کی ٹھان لی۔ وہ لگاتار کورٹ میں آکر اس کے خلاف گواہی دے رہی تھی۔ ملزم پرمجیت کے بھائی اس معاملے میں عورت کو گواہی سے روک رہے تھے اور نہ ماننے کی صورت میں اسے سنگین نتائج بھگتنے کی دھمکیاں بھی دے رہے تھے۔ عورت یکم اکتوبر کو ایک بار پھر عدالت میں آئی تھی جہاں ملزم کے بھائی نے پہلے اسے دھمکایا۔ جب وہ نہیں مانیں تو پٹائی کردی۔ اس سے تنگ آکر عورت نے ہائی کورٹ کے دروازے کے باہر خودکشی کی کوشش کی۔ ایڈیشنل سیشن جج کامنی لا نے شہرمیں بڑھتے آبروریزی کے واقعات پر سماج کی لاچاری پر تشویش ظاہر کی۔ جج کا کہنا تھا کہ عورت کی عزت کے تئیں سماج کی بے رخی چونکانے والی ہے۔ انہوں نے کہا عام جنتا کا یہ رویہ مجرمانہ قسم کا ہے۔ جج صاحبہ کامنی لا نے فرمایا کہ عوام اگر بیدار اور چوکس رہیں تو کئی لڑکیوں کی بروقت مدد کی جاسکتی ہے۔ بدقسمتی سے موجودہ معاملے میں نہیں ہوسکا۔قصوروار کو 10 کی سزا سناتے ہوئے کہا کہ معاملے میں متاثرہ عورت پاس کھڑے لوگوں سے مدد مانگتی رہی لیکن کوئی سامنے نہیں آیا۔ جج کا کہنا تھا کہ یہ بہت ہی شرم کا باعث ہے کہ واردات کی جگہ پر کام کررہے مزدور متاثرہ عورت کی مدد کے لئے نہیں آئے۔فیکٹری مالک کو بھی خبر دیر سے لگی۔
پولیس کے رویئے پر بھی عدالت نے تعجب ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ اس معاملے کی جانچ لچر طریقے سے کی گئی۔ سماعت کے بعد عدالت نے قصوروار پر 52 ہزار روپے کا جرمانہ بھی ٹھونکا۔ جج کامنی لا نے متاثرہ کو ایک لاکھ روپے کی مدد دینے کا بھی حکم دیا۔ انہوں نے کہا معاوضے کے بعد سرکار اس کا نام کسی اسکول میں درج کرائے۔ اس واقعہ میں لڑکی اسکول کے بعد اپنے گھر جارہی تھی کہ راستے میں اسے اس کے ساتھی نے روک لیا اور پاس میں ایک فیکٹری میں لے گیا وہاں اس کے ساتھ آبروریزی ہوئی ۔ لڑکی پاس کھڑے مزدوروں سے مدد مانگتی رہی لیکن کوئی اسے بچانے نہیں آیا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟