اسکولوں میں بنیادی سہولیات کی کمی


یہ بہت دکھ کی بات ہے کہ سپریم کورٹ کو ان معاملوں میں دخل دینا پڑ رہا ہے جو کام مرکز اور ریاستی حکومتوں کا ہے۔مجبوراً عدالت عظمیٰ کو ایسے معاملوں میں گائڈ لائنس دینی پڑتی ہیں۔ یہ معاملہ ہے سبھی اسکولوں میں بنیادی سہولیات کی فراہمی سے متعلق۔ عدالت نے مرکز اور ریاستی حکومتوں کو حکم دیا ہے کہ وہ 6 مہینے کے اندر اندر سبھی اسکولوں میں پینے کے پانی اور رٹوائلٹ سمیت سبھی بنیادی سہولتیں مہیا کرائے۔ جسٹس کے ایس رادھا کرشن کی سربراہی والی بنچ نے وقت اور میعاد طے کرتے ہوئے سرکاروں سے کہا ہے دیش بھر کے اسکولوں میں یہ بنیادی سہولیات فراہم کرنے کے لئے بلا تاخیر قدم اٹھائے جائیں۔ بڑی عدالت نے پچھلے 18 اکتوبر کو سبھی ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام پردیشوں کو سبھی سرکاری اسکولوں میں خاص کر لڑکیوں کے لئے ٹوائلٹ بنانے کا حکم دیا تھا۔ عدالت نے یہ بھی کہا تھا کہ بنیادی سہولیات فراہم نہیں کرنا آئین کی دفعہ21(A) کے تحت بچوں کو مفت اور ضروری تعلیم کے حق کی خلاف ورزی ہے۔ راجدھانی کے اسکولوں کی اگر بات کریں تو راجدھانی کے2675 سرکاری اسکولوں میں آدھے سے زائد میں ٹوائلٹ اور پانی کی قلت ہے۔ راجدھانی میں گرلز اسکولوں میں طالبہ کی موجودگی اس لئے کم رہتی ہے کیونکہ ان اسکولوں میں یہ سہولیات نہیں ہیں۔ ان اسکولوں میں 946 اسکول دہلی حکومت،1729 اسکول ایم سی ڈی کے ماتحت چلتے ہیں۔ سپریم کورٹ نے چھ مہینے کی میعاد مقرر کی ہے۔ دہلی سرکار اور ایم سی ڈی کے لئے یہ بڑی چنوتی ہے۔ دہلی کے وزیر تعلیم پروفیسر کرن والیہ نے ہدایت دی ہے کہ سرکاری اسکولوں میں پانی کی کمی کو پورا کرنے کے لئے ٹیوب ویل کھدوائے جائیں اور اس پانی کے ٹریٹمنٹ کے لئے پلانٹ لگائیں۔ انہوں نے بتایا مشرقی دہلی کے اسکولوں میں پانچ پروجیکٹ تھے جو شمسی توانائی سے چلنے والے ہیں۔ جو بہت کامیاب ہورہے ہیں۔ یہاں صرف بچوں کو اسکول میں پینے کے لئے پانی خوب دستیاب ہے بلکہ وہ ہر روز کین بھر کر گھر بھی پانی لے جارہے ہیں۔ راجدھانی میں ایک مسئلہ یہ بھی ہے کچھ علاقوں کے اسکولوں میں پانی کی لائن بچھانے کے ایک دو دن بعد ہی پائپ چوری ہوجاتا ہے۔ کلاسوں سے پنکھے نکال لئے جاتے ہیں۔ انہیں دوبارہ لگوانے یا مرمت کروانے کا عمل اتنا سست ہے کہ بڑی دقت آتی ہے۔ کئی بار اسکول انتظامیہ اسے لگانے کے لئے کوشش بھی نہیں کرتا۔ تلخ سچائی یہ بھی ہے بڑی تعداد میں سرکاری اسکول ایسے ہیں جہاں بلیک بورڈ اور ٹاٹ پٹی تک نہیں ہے۔ اسی طرح کئی اسکول ایسے بھی ہیں جہاں دھنگ کی عمارت بھی نہیں ہے۔ یہ دنیا جانتی ہے کہ تمام اسکولوں میں درکار ٹیچر بھی نہیں ہیں اور جہاں ہیں بھی وہاں کوئی دیکھنے والا نہیں ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ تمام اسکولوں میں کلاس میں چار یا پانچ بچے بیٹھے دکھائی پڑتے ہیں اور کچھ ایسے بچے بھی ہیں جو پڑھ تو رہے ہیں لیکن اپنا نام تک نہیں لکھ پاتے۔ اگر اسکولوں کی حالت بہتر بنانی ہے تو مرکز اور ریاستی سرکار کو اپنے فرائض کے تئیں زیادہ چست رہنا ہوگا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟