سی اے جی کوئی منیم نہیں جو صرف حکومت کا اقتصادی چٹھابنائے


آئینی تقاضوں کے ذریعے بھارت کے کمپٹرولر آڈیٹر جنرل یعنی کیگ جیسے ادارے کا قیام سرکاری کام کاج میں مالی شفافیت اور جوابدہی یقینی کرنے کے مقصد سے کیا گیا تھا۔ یہ بہت افسوس کی بات ہے کہ حال ہی میں کیگ کے وقار کو ٹھیس پہنچانے کیلئے اس پر کچھ وزرا نے سیدھے حملے کئے ہیں۔ اس پہلو سے سپریم کورٹ کا تازہ تبصرہ انتہائی اہمیت کا حامل ہوجاتا ہے۔ عدالت ہذا کو سادھو واد کے اس نے کمپٹرولر آڈیٹر جنرل یعنی کیگ کے دائرہ اختیار کو چیلنج کرنے والی ایک مفاد عامہ کی عرضی کو نہ صرف خارج کردیا بلکہ یہ بھی صاف کردیا کہ اس آئینی ادارے کو سرکاری فیصلوں کے جواز اور ان کی اصلیت کی جانچ کرنے کا پورا اختیار ہے۔ سی اے جی کے کام کاج کو جائز قرار دیتے ہوئے سپریم کورٹ نے پیر کو کہا تھا کہ سی اے جی کوئی منیم نہیں جو صرف حکومت کے کھاتوں کا اقتصادی دستاویز تیار کرے۔ سی اے جی ایک آئینی ادارہ ہے جس کا فرض وسائل کے صحیح استعمال کو دیکھنا ہے۔ یہ پارلیمنٹ کا کام ہے کہ وہ سی اے جی کے نتیجوں کو مانے یا پھر اسے نا منظور کردے۔ جسٹس آر ایم لوڈھا و جسٹس اے آر دوے کی ڈویژن بنچ نے یہ ریمارکس کیگ کے اختیار کو چیلنج کرنے والی عرضی کو خارج کرتے ہوئے دئے تھے۔ عرضی میں کوئلہ بلاک الاٹمنٹ پر پیش رپورٹ پر سوال اٹھایا گیا تھا۔ امید کرتے ہیں کہ سپریم کورٹ کے ریمارکس سے اس ٹال مٹول والی سرکار کی آنکھیں کھلیں گی۔ پچھلے دنوں مرکز کے کئی وزرا نے سی اے جی کی رپورٹ پر سوال اٹھائے تھے۔ انہوں نے رپورٹ آتے ہیں اسے بے جواز ٹھہرانے میں ذرا بھی دیر نہ لگائی۔ یہاں تک کہ سی اے جی پر سیاسی نظریئے سے ترغیب پاکرکام کرنے تک کا الزام لگایا۔اور بھی تکلیف دہ بات یہ ہے کہ خودوزیراعظم کا رویہ اس سے الگ نہیں تھا۔ یہ سب اس لئے کیا گیا کیونکہ منمانے طور پر الاٹمنٹ سے ہوئے نقصان کا جو تجزیہ سی اے جی نے پیش کیا ہے وہ سرکار اور کانگریس کے لئے ایک بڑی سیاسی پریشانی کا سبب بن گیا۔ سی اے جی نے اپنی رپورٹ میں صاف کہا اس جس پر وہ اب بھی قائم ہے منمانے الاٹمنٹ سے 1 لاکھ86 ہزار کروڑ روپے کا نقصان ہوا ہے۔ کانگریس کے سینئر وزیر تو سی اے جی پرحملہ بول رہے تھے لیکن خود وزیر اعظم نے بھی اس آئینی ادارے کو غلط ٹھہرانے کی کوشش کی۔ کوئلہ بلاک الاٹمنٹ معاملے میں سی اے جی کی رپورٹ اتھانٹک ہے یا نہیں یہ پارلیمنٹ کی پی اے سی پر چھوڑ دینا چاہئے۔ جب سی اے جی کی تشکیل ہوئی تھی تب سے محصول اور سرکاری اخراجات کا دائرہ کافی بڑھا ہے۔ یہ ہی نہیں دھاندلیوں کی شکایتیں بھی بڑھی ہیں ایسے میں یہ دیکھنا اور بھی ضروری ہوگیا ہے کہ سرکار پیسے کا استعمال شفافیت کے ساتھ اور سوجھ بوجھ اور مفاد عامہ کے تقاضوں کے حساب سے ہورہا ہے یا نہیں یہ کردار آئین نے سی اے جی کو سونپا ہے۔ وقت کی ضرورت تو سی اے جی کے اختیارات کوبڑھانے کی ہے۔ فی الحال تو بہتر یہ ہی ہوگا کہ اس آئینی ادارے کے ساتھ گمراہ کن پروپگنڈہ کرنے سے باز آئیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟