بھاجپا کوئلہ الاٹمنٹ گھوٹالے پر کانگریس کو بخشنے کو تیار نہیں


کوئلہ بلاک الاٹمنٹ کا معاملہ اپوزیشن کے ہاتھ ایسا لگ گیا ہے جس سے خود وزیر اعظم اور یہ سرکار آسانی سے بچ نہ پائے گی۔ کانگریس اپوزیشن اتحاد کو توڑنے کی ہر ممکن کوشش کررہی ہے۔ ڈس انفارمیشن، مس انفارمیشن،خبر پلانٹ کرنے کا دور زوروں سے جاری ہے۔ پارٹی نے جمعرات کو یہ بات اڑا دی کے بھاجپا ایم پی لوک سبھا سے استعفیٰ دے سکتے ہیں۔ بعد میں بھاجپا کو اس کی تردید کرنی پڑی۔ کوئلہ بلاک الاٹمنٹ پر بھارت کے کمپٹرولر اڈیٹر جنرل کی رپورٹ کو لیکر وزیر اعظم منموہن سنگھ کے استعفے پر اڑی بھاجپا نے صاف کیا کہ وہ نہ تو پارلیمنٹ چلنے دیں گے اور نہ ہی لوک سبھا سے استعفیٰ دیں گے۔ پورے معاملے میں ایک دلچسپ موڑ اس وقت آیا جب بدھوار کو دوپہر دو بجے لوک سبھا کی کارروائی شروع ہونے والی تھی اس وقت شرد پوار اور سپا چیف ملائم سنگھ یادو بات کررہے تھے تو سشما سوراج ان کے پاس پہنچ گئیں اور بولیں شرد بھائی جب مہنگائی ہوتی ہے تو کانگریس کے لوگ آپ کو پھنساتے ہیں۔ ٹو جی گھوٹالہ ہوتا ہے تو راجہ کو جیل بھجوا دیتے ہیں، کنی موجھی کو تہاڑ پہنچا دیتے ہیں۔ پہلی بار کانگریس کے لوگ سیدھے سیدھے پھنسے ہیں۔ جس وقت کوئلہ بلاکوں کا بٹوارہ ہوا وزیر اعظم خاص طور سے نشانہ بنے ہیں اس لئے انہیں کیسے چھوڑدیں؟ ہر چیز پران کے دستخط اور دوسروں پھنسا کر خود بچ جاتے ہیں۔ شرد پوار اور ملائم سنگھ چپ چاپ یہ سنتے رہے، بولے کچھ نہیں۔ دراصل بھاجپا کے اندر یہ رائے بن چکی ہے کہ کانگریس زیادہ تر گھوٹالے پر اپنا ٹھیکرا اپنے اتحادیوں کے سرپھوڑ دیتی ہے اور خود پاک صاف ہونے کا دعوی کرتی ہے۔ کیونکہ اس مرتبہ کانگریس سیدھے سیدھے پھنسی ہے اس لئے اسے بھی تھوڑا سبق سکھانا چاہئے۔ پارلیمنٹ کے اندر اورباہر بنے اس ماحول سے گد گد بھاجپا کے حکمت عملی سازوں اب اس لڑائی کو مرحلہ وار طریقے سے لڑنے کی اپنی اسکیم کو انجام دینے کے موڈ میں نظرآرہے ہیں اور منصوبہ بند طریقے سے لڑائی کے اشارے خود پارٹی کے سینئر لیڈر یشونت سنہا نے بھی دئے۔ پارٹی نیتا حالانکہ پہلے تو جے پی سی سے اپنے ممبران کے استعفے دینے کی بات کو مسترد کرچکے ہیں لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہنے سے نہیں چوکے کہ جے پی سی میں جانے یا نہ جانے کی بات ابھی پوری طرح اس کے چیئرمین پی سی چاکو کے برتاؤ پر منحصر ہے۔پارٹی کی حکمت عملی کا یہ پہلا مرحلہ ہے کہ اگر جے پی سی کے چیئرمین ٹو جی گھوٹالہ میں گواہی کے لئے وزیر اعظم یا وزیر خزانہ کو بلانے کیلئے تیار نہیں ہوتے تو ان پر سرکار کے اشارے پر کام کرنے کا الزام لگاتے ہوئے بھاجپا کے ممبر اجتماعی طور سے جے پی سی سے استعفیٰ دیں گے۔ دوسرے مرحلے کے تحت پارٹی کے ممبر پارلیمنٹ کی دیگر کمیٹیوں سے بھی اپنا استعفیٰ دیں گے۔ اس درمیان پارٹی پارلیمنٹ کے ساتھ ساتھ سڑکوں پر اپنی تحریک کو تیز کرے گی۔ حالانکہ ابھی تیسرے اور چوتھے مرحلے اورپانچویں مرحلے کو لیکر تھوڑی الجھن کی حالت بنی ہوئی ہے لیکن اتنا ضرور لگتا ہے کہ بھاجپا نے طے کرلیا ہے کہ اس بار کانگریس کو اتنی آسانی سے بچنے نہیں دیا جائے گا۔ دوسری طرف سونیا گاندھی نے بھی اپنے ممبران کو لڑنے کی تیاری کرنے کا حکم دے دیا ہے۔ لگتا ہے کہ لڑائی ابھی لمبی چلے گی۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟