آیا تو تھا قبر سے سونا نکالنے پر بن گیا پاکستانی جاسوس



Published On 2 March 2012
انل نریندر

پاکستان کی خفیہ ایجنسی نے پچھلے کچھ دنوں سے بھارت میں جاسوسی کرنے کے طور طریقوں میں تھوڑی تبدیلی کی ہے۔ پچھلے کچھ دنوں میں پکڑے گئے پاکستانی جاسوسوں سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ آئی ایس آئی اب ایسے لوگوں کو بھارت جاسوسی کرنے کے لئے بھیج رہی ہے جن کے پکڑے جانے سے انہیں کوئی زیادہ فرق نہ پڑے۔ وہ ایسے لوگوں کو تلاشتی ہے جن کا بھارت سے کوئی رشتہ ہوتا ہے اور جوکرمنل ذہنیت کے ہوتے ہیں۔ جو پیسہ کمانے کے لئے کچھ بھی کرنے کو تیار ہوجاتے ہیں۔ وہ بھارت میں ہی آکر بس جاتے ہیں اور اپنا کام تب تک کرتے رہتے ہیں جب تک وہ پکڑے نہ جائیں۔ حال ہی میں دہلی پولیس نے ایک ایسے ہی جاسوس کو پکڑا ہے۔ اس کی کہانی کسی بالی ووڈ فلم کی کہانی سے کم نہیں ہے۔ آیا تو وہ گووا کی ایک قبر میں دبے سونے کو نکالنے تھا لیکن وقت نے ایسی پلٹی ماری کے وہ جاسوس بن گیا۔ ای میل اور چیٹنگ سے یہ شخص پاکستان میں بیٹھے اپنے آقاؤں کو انڈین آرمی کے متعلق اہم جانکاریاں پہنچا رہا تھا۔ہندوستانی سکیورٹی ایجنسیوں کو گمراہ کرنے کیلئے اس نے باقاعدہ کولکتہ میں شادی بھی کرلی تھی ا س کے دو بچے بھی ہیں۔ اپنا کام کرنے کے لئے اس نے فوج کے ایک ریٹائرڈ افسر کے یہاں ڈرائیور کی نوکری کر لی تھی۔ اس شخص کا نام ہے کامران اختر۔ اس کی کہانی تب شروع ہوئی جب اسے ملنے اس کا چاچا محمد سلیم پاکستان گیا تھا۔ کامران کراچی میں چوری کیا کرتا تھا۔ چاچا نے گووا میں چوری کرنے کے لئے کامران کو بھارت آنے کی دعوت دی۔ 1992ء میں کامران پاکستانی پاسپورٹ پر ہندوستان آیا۔ اٹاری بارڈر کے راستے کامران کولکتہ آیا اور چاچا سلیم کے یہاں رکا۔ یہاں سے دونوں گووا گئے ۔ سلیم کا ایک واقف کار اشرف خاں بھی ان کے ساتھ گیا۔ جس جگہ پر بنی قبر میں دبے سونے کو انہیں چرانا تھا وہاں ایک علیشان عمارت بن چکی تھی لہٰذا ان کا پلان فیل ہوگیا۔ اس کے بعد انہوں نے وہاں چوریاں شروع کردیں لیکن دوسری ہی چوری میں وہ پکڑے گئے اور تین سال تک جیل میں رہے۔جیل سے چھوٹنے کے بعد کامران کولکتہ پہنچا اور وہاں پر اس نے آصف حسین نام سے ہندوستانی پاسپورٹ بنوا لیا۔ایک مہینے کا پاکستانی ویزا لیکر وہ پاکستان چلا گیا لیکن اس کے بارے میں آئی ایس آئی اور پاکستان فوجی انٹیلی جنس کو پتہ چل گیا۔ انہوں نے اسے پکڑ کر جاسوس بنانے کا فیصلہ کیا۔ ٹریننگ کے ساتھ ساتھ اسے ہندی بھی سکھائی گئی۔ اس کے بعد آصف حسین کو نیپال بھیجا گیا اور وہاں سے 1997ء میں وہ سڑک کے راستے کولکتہ پہنچا۔اس کے بعد اس نے ریڈیمیٹ گارمینٹ کا کام شروع کا۔ دو سال بعد اس نے 24 پرگنہ کی باشندہ ایک لڑکی سے شادی کرلی۔ اس نے آصف حسین نام سے شناختی کارڈ، پین کارڈ، ڈرائیوننگ لائسنس بھی بنوا لیا۔ بینک اکاؤنٹ کھول لیا۔ بینک کھاتے میں پاکستان سے سعودی عرب ہوتے ہوئے آیا پیسہ جمع کرالیا۔ کولکتہ میں اس نے ایک فوجی افسر کے یہاں ڈرائیور کی نوکری حاصل کرلی۔ افسر کے ساتھ اسے ایسٹرن کمان ہیڈ کوارٹر ولیم فورٹ جانے کا بھی موقعہ ملا۔ یہاں دودھ بیچنے والوں اور ڈاک دینے والوں کو اس نے اپنا ذریعہ بنا لیا۔ دہلی میں ایسے ہی کسی سورس سے خفیہ دستاویز حاصل کرنے کے لئے وہ آیا تھا۔ دستاویز حاصل کرنے کے بعد وہ نئی دہلی ریلوے اسٹیشن پر پہنچا تھا جہاں اسے دہلی پولیس کی کرائم برانچ نے گرفتار کرلیا ہے۔ یہیں سے ایک دلچسپ کہانی شروع ہوئی۔ آیا تو تھا سونا نکالنے اور بن گیا جاسوس۔
Anil Narendra, Daily Pratap, ISI, Pakistan, Spy, Vir Arjun

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟