ووٹ چوری پر آر پار کی لڑائی!

لوک سبھا چناو¿ کے 14 ماہ بعد ایس آئی آر اور ووٹ بندی کے مسئلے پر اپوزیشن کو متحد کرنے میں کامیاب رہے ہیں ۔بھارت میں سیاست اس وقت ٹاپ گیئر پر ہے ۔یہ صحیح ہے کہ بھارت جیسے بڑے دیش میں چناو¿ کروانا آسان نہیں ہے ۔یہی نہیں بھارت میں اتنے چناو¿ ہوتے ہیں جو چناو¿ کمیشن کی صلاحیت کو چنوتی ہیں اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بھارت کاچناو¿ کمیشن کافی حد تک ایک آزاد اور منصفانہ چناو¿ کرانے میں کامیاب رہا ہے ۔ووٹ کرنا ہر ووٹر کا آئینی اور جمہوری حق ہے ۔یہ بھی ضروری ہے اس کا ووٹ اسے ہی ملے جسے اس نے ووٹ دیا ہے ۔جب یہ اندیشہ پیدا ہو جائے کہ اس کا ووٹ دیا کسی کو اور گیا کہیں اور تو بڑا شبہ اور مایوسی پیدا ہو جاتی ہے۔کسی بھی دیش میں جمہوریت کی مضبوطی اور بھروسہ مندی اس بات پر منحصر کرتی ہے کہ اس میں سرکار کو چنے جانے کی کھاناپوری کتنی صاف اور آزادانہ اور شفاف پر مبنی ہے اس کے لئے چناو¿ منعقد کرنے والے ادارے کو یہ یقینی کرتا ہوتا ہے کہ کوئی بھی شہری ووٹ دینے کے حق سے محروم نہ رہے ۔پولنگ کی پوری کاروائی شفاف و چناو¿ میں حصہ داری لینے والی سبھی پارٹیوں کے لئے بھروسہ مند ہو اور نتیجوں کو لے کر سبھی فریق مطمئن ہوں ۔کانگریس نیتا اور لوک سبھا میں اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی نے حال ہی میں کرناٹک کے ایک اسمبلی حلقہ کا ڈیٹا رکھتے ہوئے الزام لگایا کہ ووٹر لسٹ میں گڑ بڑی ہوئی ہے ۔دستاویز کا ڈھیر میڈیا کے سامنے رکھتے ہوئے راہل گاندھی نے دعویٰ کیا کہ میں فہرست چناو¿ کمیشن کے ذریعے دستیاب ووٹر لسٹ کے ڈھیر سے نکلی ہے ۔ان کا دعویٰ ہے کہ مہادیو پورہ اسمبلی حلقہ میں ایک لاکھ سے زیادہ ووٹوں کی چوری ہوئی ہے ۔پریس کانفرنس میں راہل گاندھی نے چناو¿ کمیشن پر سنگین الزام لگائے اور دعویٰ کیا کہ لوک سبھا چناو¿ مہاراشٹرا ور ہریانہ اسمبلی کے چناو¿ میں ووٹر لسٹ میں بڑے پیمانہ پر دھاندلی کی گئی ۔ثبوتوں کے ساتھ راہل گاندھی نے ثابت کرنے کی کوشش کی ۔ووٹر لسٹ میں گڑ بڑی ،فرضی ووٹر ،غلط پتے ،ایک پتے پر کئی ووٹر ایک ووٹر کا نام کئی جگہ فہرست میں ہونے جیسے کچھ خاص طریقوں پر مبنی ووٹ چوری کرنے کے اس ماڈل کو کئی چناوی حلقوں میں عمل میں لایا گیا تھا تاکہ بھارتیہ جنتا پارٹی کو فائدہ مل سکے ۔حالانکہ چناوی گڑ بڑیاں ای وی ایم میں کھیلے کی شکایتیں توپہلے بھی آتی رہی ہیں لیکن عام طور پر وہ کسی نتیجہ تک نہیں پہنچ سکیں یا پھر الیکشن کمیشن کی جانب سے انہیں بے بنیاد قراد دیاجاتا رہا ہے ۔اب اس بار جس سنگین شکل میں اس معاملے کو اٹھایا گیا ہے اس کے بعد دیش بھر میں یہ بحث چھڑ گئی ہے اگر ان الزاما ت کا مضبوط بنیاد ہے تو اس سے ایک طرح سے پورے چناوی عمل کے جواز کو کٹھگرے میں کھڑا ہوتا ہے ۔اس مسئلے پر چناو¿ کمیشن نے فی الحال کوئی تشفی بخش جواب دینے کے بجائے راہل گاندھی سے حلف نامہ پر دستخط کر دینے کی ہدایت دینے یا پھر دیش کی عوام کو گمراہ نہ کرنے کو کہا ہے مگر راہل گاندھی نے ووٹ چوری کا دعویٰ کرتے ہوئے جس طرح اپنے الزامات کو ثبوتوں کی بنیاد پر رکھا ہے اس کے بعد چناو¿ کمیشن سے امید کی جاتی ہے کہ وہ پورے چناوی عمل پر بھروسہ کو بحال رکھنے کے لئے شفافیت کے ساتھ اس سلسلے میں اٹھے سوالوں کا جواب سامنے رکھے ۔بہرحال اس الزام کی سنجیدگی کو سمجھنا ضروری ہے ۔دو کمروں میں 80/46 لوگ کیسے رہ سکتے ہیں ۔ان میں تمام ووٹروں کی تصوروں کے سائز میں کتنے چھوٹے ہیں پہچان کرنا مشکل ہے ان الزامات کی تصدیق بغیر کسی الزام یا نکتہ چینی کے کرنی چاہیے ۔ووٹر لسٹ کے تئیں کمیشن کااپنی ذمہ داری سے بچ نہیں سکتا ۔جو بھی کمیاں سامنے آتی ہیں ان کے بارے میں صاف طور سے پبلک طور پر جواب دینا چاہیے ۔سوال الزمات در الزامات کا نہیں ہے سوال دیش میں آئین کی حفاظت کا ہے جس کی حفاظت تبھی ہو سکتی ہے جب ہر شہری کو اپنے ووٹ دینے کاحق اور اس کے ووٹ اسے ہی جائے جسے اس نے دیا ہے ۔ہماری جمہوریت کی جڑیں آزاد اور منصفانہ اور شفاف چناو¿ ہے مگر اس میں بھی ہیر پھیر ہوتا ہے تو ہمارے آئین و جمہوریت کی جڑیں کمزور ہوتی ہیں۔امید ہے کہ چناو¿ کمیشن اٹھے سوالوں کا تسلی بخش جواب دے گا اور چناوی عمل کو مضبوط اور شفاف بنائے گا ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

سیکس ،ویڈیو اور وصولی!

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘