جیلوں میں ذات بات کا امتیاز !

جیلوں میں ذات بات کے امتیاز کو ختم کرنے سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کی جتنی تعریف کی جائے اتنی ہی کم ہے اس رپورٹ یا عرضی کی بھی تعریف ہونی چاہئے جس نے سدیوں سے چلی آ رہی امتیاز کی اس لعنت پر حملہ کرنے کی حمت دکھائی ۔سپریم کورٹ نے دیش بھر کی 11 ریاستوں میں جیل مینول میں ذات پر مبنی امتیاز والی تقاضوں کو ختم کرتے ہوئے کہا کے آزادی کے 75 برس گزر چکے ہیں لیکن ہم ابھی تک ذات بات پر مبنی امتیاز کو جڑ سے ختم نہیں کر پائے ۔تاریخی فیصلے میں جیلوں میں ذات کی بنیاد پر قیدیوں کے درمیان کام کے بٹوارے پر آنے والی پریشانیوں کا نپٹارہ کرتے ہوئے امتیازی قوائد کو ختم کر دیا جائے بڑی عدالت نے جیل مینول کے ان تقاضوں کو منسوخ کرتے ہوئے سبھی ریاستوں کو فیصلے کے مطابق جیل تقاضوں میں تبدیلی کی ہدایت دی ہے۔جیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ ،جسٹس پاردی والا و جسٹس منوج مشرا کی بینچ نے کہا امتیاز کرنے والے سبھی قائیدے غیر آئینی ٹھہرائے جاتے ہیں جیل میں ذات بات کا خد نوٹس لیتے ہوئے رجسٹری کو 3 مہینے بعد لسٹ میں اندراج کی ہدایت دی اس فیصلے کو سوناتے ہوئے چیف جسٹس نے لیڈی صحافی سوکنیا شانتا کی تعریف کرتے ہوئے کہا کی شانتا میڈم آپ کے تحقیقی آرٹیکل کے لئے بہت بہت شکریہ آپ کی آرٹیکل سے ہی معاملے کی سماعت شروع ہوئی پتا نہیں اس آرٹیکل کے بعد حقیقت کتنی بدلی ہوگی لیکن ہمیں امید ہے کے اس فیصلے سے جیلوں میں امتیاز کے حالات ختم ہوں گے ۔جب لوگ آرٹیکل لکھتے ہیں ریسرچ کرتے ہیں اور معاملوں کو عدالت میں لاتے ہیں اس طرح سے سماعت کی اصلیت دکھا سکیں تو ہم اس مسلوں کو نپٹا سکتے ہیں یہ سبھی کارروائیاں قانون کی طاقت کو نشان دیہی کرتی ہیں سوکنیا شانتا دا وائر ڈیجیٹل پلیٹ فارم کے لئے کام کرتی ہے انہوںنے بھارت کی مختلف ریاستوں میاں جیلوں میں ذات پات پر امتیاز پر رپورٹنگ کی ایک سیریز دکھائی اس میں انہوںنے قیدیوں کو ذات پات کی بنیاد پر دئے جانے والے کام اور ان کے ساتھ امتیاز جیسے کئی اہم مسلوں کو مکمل طور پر اجاگر کیا اس سیریز کے جاری ہونے کے بعد راجستھان ہائی کورٹ نے بھی از خود نوٹس لیا اس کے بعد سوکنیا نے سپریم کورٹ کا رخ کیا اور فیصلہ آپ کے سامنے ہے سرکاری دستاویزارات میں ذات کا نام لکھنا ضروری ہے قانون میں ترمیم کر اس طرح کے امتیاز کو ختم کرنے میں سرکاریں کتراتی ہیں کیوں کہ ذات پر مبنی سیاست کرنے میں یہ ماہر ہیں اس لئے ان کی ترجیحات میں انگریزوں کے بنائے قوائد کو میں اصلاح نہیں کرتی سیکولر ملک ہونے کے باوجود ہم آج تک ذات پات اور دقیا نوسی کے جال سے نکلنے میں پوری طرح ناکام رہے ہیں ۔جرائم پیشہ کو سزا بیشک عدالت دیتی ہے لیکن قید کے دوران ان کے ساتھ کئے جانے والا جیل حقام کا برتاﺅ بھی کئی مرتبہ جانب دارانہ ہوتا ہے یہ صلاح صرف جیل قوائد تک ہی محدود نہیں ہونی چاہئے بلکہ ہر طرح کے اصلاحاتی قدم پورے سماج میں لاگو کئے جانے کی ضرورت ہے یہ چھواچھوت یا ذات پر مبنی امتیاز سے سماج کو آزاد کرانے کی ضرورت ہے ۔عدالت نے یہ پہل کر دی ہے۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟