جس انگلی کو پکڑ کر چلے اسی کو کاٹ رہے ہیں !

جیسے جیسے 2024 لو ک سبھا چناو¿ کے نتائج کا اثر ہورہا ہے ویسے ویسے اب بھاجپا کے اندر بغاوتی آوازیں بھی سنائی پڑنے لگی ہیں ۔جیسے ہی نتیجے آئے بھاجپا 240 پر اٹک گئی ۔کئی باغی نیتا کھل کر سامنے آگئے شاید وہ اس موقع کے انتظار میں تھے کہ مرکزی میں مودی شاہ جوڑی تھوڑی کمزور ہو تو وہ ہلا بول سکیں ۔راجستھا ن میں ادھم پور پہونچی سابق وزیراعلیٰ اور بھاجپا کی قومی نائب صدر وسندھرا راجے سندھیا نے ایک ایسا بیان دے دیا جس کی سیاسی گلیاروں میں بحث چھڑ گئی ہے ۔سندر سنگھ بھنڈاری چیریٹبل ٹرسٹ کی جانب سے منعقد ایک مخصوص پبلک سمان سمارہ اور سمپوزیم پروگرام میں وسندھرا راجے بول رہی تھیں اس دوران انہوں نے کہا کہ سندھر سنگھ بھنڈاری نے چن چن کر لوگوں کو بھاجپا سے جوڑا اور ایک پودے کو پیڑ بنایا ۔انہوں نے تنظیم کو مضبوط کرنے کا کام کیا ورکروں کو اونچا اٹھانے کا کام کیا ۔انہون نے کہا بھنڈاری جی نے راجستھان میں بھیرو سنگھ سیکھاوت سمیت کتنے ہی لیڈروں کو آگے بڑھنے کا موقع دیا ۔لیکن وہ وفا نا بنا یہ دور الگ تھا تب لوگ کسی کے لئے کئے ہوئے کام کو مانتے تھے لیکن آج تو لوگ اسی انگلی کو پہلے کاٹنے کی کوشش کرتے ہیں جس کو پکڑ کر وہ چلنا سیکھتے ہیں اب وسندھرا کے اس بیان کے بعد تمام طرح کے سیاسی معنی نکالے جا رہے ہیں ۔چرچا ہے کہ راجستھان اسمبلی اور لوک سبھا چناو¿ کے دوران جس طرح سے وسندھرا راجے اور پارٹی لیڈرشپ کے درمیان تلخی دیکھنے کو ملی تھی اس کی گانٹھ کھلنے لگی ہے ۔چناو¿ کے دوران من میں جو کسک تھی وہ اب آہستہ آہستہ سامنے آنے لگی ہے ۔پروگرام میں آسام کے گورنر گلاب چندکٹاریہ بھی موجود تھے ۔راجے نے کہا گلاب چند کٹاریہ نے چن چن کر لوگوں کو بھاجپا سے جوڑا کٹاریہ اب آسام کے پارٹی جنرل سیکریٹری ہیں لیکن وہ دو رہ کر بھی ہم لوگوں کے قریب ہیں اور خیال رکھتے ہیں دراصل راجستھان اسمبلی چناو¿ کے دوران ٹکٹ کر لیکر وسندھرا راجے اور گلاب چند کٹاریہ کے درمیان تلخی کی خبریں سامنے آئی تھیں ۔اس کے علاوہ چناو¿ نتائج کے بعد پارٹی اعلیٰ کمان نے وسندھرا راجے کو نظر انداز کرکے پردے کے پیچھے سے بھجن لال شرما کو ریاست کے وزیراعلیٰ کی کرسی سونپ دی تھی ایسے میں دبے الفاظ میں ہی سہی بھاجپا لیڈر شپ اور وسندھرا راجے کے درمیان تلخی کی خبریں گاہے بگاہے سرخیوں میں بنتی رہی ہیں ۔ابھی تو یہ شروعات ہے آگے دیکھتے رہیے کیا ہوتا ہے اور کیا کیا ۔پوری پارٹی کے اندر بہت سے لیڈر اور ورکروں کو لیڈرشپ کو لیکر ناراضگی ہے لیکن خوف کے ماحول سے وہ چپ بیٹھے ہیں موقع ملتے ہیں کئی اور لیڈروں کی مخالف آوازیں سننے کو مل سکتی ہیں ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟