پہلے اتیمانوو ،پھر بھگوان بننا چاہتے ہیں!

جھارکھنڈ کے گملا میں گرام سطح ورکر بات چیت پروگرام کے دوران آر ایس ایس کے چیف موہن بھاگوت نے کہا کے لوگ انسان سے اتیمانوو پھر بھگوان بننا چاہتے ہیں ۔جس میں انسانیت نہیں ہے ،وہ انسان نہیں ہے اور پرگتی کا کوئی انت ہی نہیں ہے ۔لوگ اتیمانوو بننا چاہتے ہیں ،لیکن وہ یہی نہیں رک سکیں ۔وہ دیوتا بننا چاہتے ہیں پھر بھگوان بننا چاہتے ہیں پھر عالمی سروپ بننا ۔کوئی نہیں چانتا کے اس سے بڑا کچھ بھی نہیں ۔وکاس کا کوئی انت نہیں ہے۔ہمیں یہ سوچنا چاہئے کے ہمیشہ اور زیادہ کی گنجائش ہوتی ہے باہری ترقی اور اندونی ترقی کاکوئی انت نہیں ہے۔انہوںنے کہا خود اعتمادی کرتے وقت ایک انسان سپر مین بننا چاہتا ہے ،اس کے بعد وہ دیوتا اور پھر بھگوان بننا چاہتا ہے ۔اور ترقی کی بھی توقعہ رکھتا ہے لیکن وہا سے بھی آگے کچھ اور بھی ہے کیا یہ کوئی نہیں جانتا ہے ۔آر ایس ایس چیف نے کہا کے کچھ لوگوں میں انسانیت ہونے کے باوجود انسانی خوبیوں کی کمی ہوتی ہے انہیں سب سے پہلے اپنے اندر ان خوبیوں کو پیدا کرنا چاہئے ۔وہ جمعرات کو گملا کے کشن پور میں وکاس بھارتی ادارہ میں منعقدہ دیہی سطح پر ورکرس کانفرنس کو خطاب کر رہے تھے انہوںنے کہا کے وکاس کوئی انت نہیں ہے دیش میں نئے نئے باب جوڑنے کی ضرورت ہے ۔مگر بنیادی اخلاق برقرار رہنا چاہئے۔دیش کے پچھڑے سماج کا کوئی وکاس نہیں ہوا ہے۔وہ آج بھی دشواریوں سے گھرے ہیں وہاں کام کی ضرورت ہے ۔ورنا جن کے پاس اثر ہے وہ اس سماج کے کمیوں کو دور کر ان کی پورے رویے کو ہی بدل دیں گے ۔ان کا اشارہ تبدیلی مذہب کی کی طرف تھا انہوںنے یہ بھی کہاجہاں تپسیا ہے وہاں نتیجہ ہے اور بروقت کیا گیا کام رنگ لاتا ہے ۔بھاگوت نے کہا قبائلی سماج کے برتاﺅ اور اس کی خیالات کو بدلہ جا رہا ہے جن کے پاس پاوور ہے وہ جن جاتی سماج کی کمیاں دور کرنے کے نام پر یہ کر رہے ہیں ان کا اشارہ پھر تبدیلی مذہب پر تھا ان کا کہنا تھا آج کل خود ساختہ ترقی یافتہ لوگ سماج کو کچھ دینے میں یقین رکھتے ہیں جو ہندوستانی تہذیب میں ہے انہوںنے کہا سناتن تہذیب اور دھرم راج محلوں سے نہیں بلکہ یہ جنگلوں سے آئی ہے ۔بدلتے وقت کے ساتھ ہمارے کپڑے تو بدل سکتے ہیں لیکن ہمارا برتاﺅ کبھی نہیں بدلے گا بدلتے وقت میں اپنے کام اور خدمات کو جاری رکھنے کے لئے ہمیں نئے طور طریقے اپنانے ہوں گے جو لوگ اپنے برتاﺅ کو برقرار رکھتے ہیں انہیں ترقی یافتہ کہا جاتا ہے بھاگوت نے کہا سبھی کو سماج کی بہبود کے لئے کوشش کرنی چاہئے اور قبائلیوں کو پکڑے ہوئے ہیں اور ان کے لئے تعلیم ہیلتھ سیکٹر میں کافی کام کئے جانے کی ضرورت ہے۔موہن بھاگوت ایک بار پھر بار بار نصیحتیں دیں رہے ہیں آخر یہ کس کے لئے ہیں؟کس کو خبردار کرنے کا کام کر رہے ہیں ؟کیا وہ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کے وہ اپنے طور طریقوں کو بدلو نہیں تو پوری لٹیا ڈوب جائیگی۔آپ تو ڈوبوگے ہی ساتھ میں پارٹی اور سنگھ کو بھی لے ڈوبوگے ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟