ناخوش سی جی آئی بولے !الزام لگانا آسان ہے!

معاملوں کو درج فہرس کو لیکر پیدا تنازعہ سے ناخوش چیف جسٹس آف انڈیا ڈی ایس چندر چور کا کہنا ہے کے الزام لگانا اور خط لکھنا بہت آسانا ہے انہوںنے صاف کیا بیماری کی وجہ سے جسٹس اے ایس بوپنا کے دستیاب نا ہونے کی وجہ سے منی لانڈرنگ کے معاملے میںعاپ لیڈر ستیندر جین کی ضمانت عرضی کو جسٹس بیلا تریویدی کی بینچ کے سامنے درجہ فہرس کیا گیا 2 سینئر بار کے ممبر دشنت دوبے ،پرشانت بھوشن نے جسٹس چندر چور کو الگ الگ خطوط لکھ کر معاملوں کو سماعت کی فہرس میں مبینہ گڑبڑی کا معاملہ اٹھایا ہے اور ان کہنا ہے کے عرضیوں کو جس بینچ کے ذریعہ سنا جانا مقرر ہے اسے پلٹ کر بھیجا جا رہا ہے اس نا گذیںتنازعہ کے سلسلہ میں چیف جسٹس نے یہ رائے زنی کی ہے انہوںنے جین کی طرف سے پیش ہوئے وکیل ابھیشیک منو سنگھوی کی اس درخواست کو قبول کرنے سے انکار کر دیا جس میں دہلی کے سابق وزیر ستیندر جین کی ضمانت عرضی ہر جسٹس تریویدی کی بینچ کے ذریعہ کی جانے والی سماعت کو ملتوی کرنے کا درخواست کی تھی چیف جسٹس نے کہا متعلقہ جج ہی فیصلہ لیں گے اور الزام لگانا اور خط لکھنا بہت آسان ہے جسٹس اے ایس بھوپنا کے دفتر سے ایک خط آیا ہے جس میں وہ طبیت خرابی کی وجہ سے وہ عدالت نہیں آئے ہیں بھوپنا کا خد کا کہنا ہے کے وہ ان کے ذریعہ سنے گئے سبھی مقدموں کو جزوی طور پر سنا ہوا کی شکل میں نہیں چھوڑا جانا چاہئے چیف جسٹس نے کہا اس لئے جین کی ضمانت عرضی کو جسٹس تریویدی کو سونپا گیا جنہوںنے آخری بار معاملے کو سنا تھا کیوں کہ یہ انترم ضمانت کی معیاد بڑھانے کے لئے عرضی ہے میں نے سوچا کے کے میں صاف کردوں ۔ جسٹس چندر چور نے تعجب ظاہر کرتے ہوئے کہا بار کے ممبر کا کہنا ہے یہ عجیب ہے کے مجھے یہ خاص جج چاہئے اس لئے عدالت کے کمرے میں موجود سرکاری وکیل تشار مہتا نے کہا ایسے بدنیتی پر مبنی خطوں سے نپٹارے کا واہد طریقہ یہ ہے کے انہیں نظر انداز کر دیا جائے ان پر رائے زنی نہیں کی جانی چاہئے چیف جسٹس نے اس بات کی وضاحت کرنے کے لئے جسٹس بوپنا اور جسٹس بیلا تریویدی کی بیچ کے کچھ پچھلے احکامات کا ہوالہ دیا وہ چاہتے تھے کے جین کے معاملے میں اس کو تزوی طور سے سنے معاملے کو خیالی نا رکھا جائے انہوںنے کہا بار کا کوئی بھی ممبر یہ کہہ رہا ہے کے اس اہم کیس کو جسٹس سنے اور کسی دیگر جج نا سنے ایسا نہیں ہو سکتا جسٹس بوپنا کو میڈیکل چھوٹی پر جانا پڑا جین کے وکیل نے کہا کے عرضی پر جسٹس تریویدی کی بینچ کے ذریعہ مجوزہ سماعت کو ٹال دیا جانا چاہئے کیوں کہ جسٹس بوپنا جسٹس تریویدی کی بینچ نے معاملے میں کافی دلیلیں سنی تھی اب یہ معاملہ بینچ کے سامنے درجہ فہرست ہے ۔جس میں جسٹس بوپنا شامل نہ ہوں جس جسٹس کے پاس یہ معاملہ ہے وہی اس پر فیصلہ لیں گے ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟