وزیر اعظم کی تنقید بغاوت نہیں !

کرناٹک ہائی کورٹ نے ایک اسکول انتظامیہ کے خلاف بغاوت کا مقدمہ خارج کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم نریندر مودی کے خلاف نازیب اور قابل اعتراض اور غیر ذمہ دارانہ بیان تھے ۔لیکن اسے بغاوت نہیں کہا جا سکتا ۔ ہائی کورٹ کی کلبرگی بنچ کے جسٹس ہیمنت چندن گودر نے کوایک بیدر جو نیوٹاو¿ن پولیس میں ایف آئی آر کو خارج کرتے ہوئے بیدر کے اسکول شاہین اسکول کی انتظامیہ کے سبھی ملزمان علاو¿الدین ،عبدالخالق ،محمد بلال ایماندار اور محمد مہتاب کو کلین چیٹ دے دی ہے۔ عدالت نے کہا کہ مختلف دھارمک گروپوں کے درمیان بھائی چارہ بگاڑنے کی دفعہ 153(A) کو اس کیس میں موزوں نہیں پایا گیا ہے۔ جسٹس چندن گودر نے اپنے فیصلے میں کہا کہ وزیر اعظم کیلئے نازیب بات بولنا نہ صرف توہین آمیز ہے بلکہ غیر ذمہ دارانہ بھی ہے ۔ سرکار کی پالیسوں کی عام تنقید جائز ہے لیکن آئینی عہدوں پر بیٹھے لوگوں کو کسی پالیسی ساز فیصلے کیلئے بے عزت نہیں کیا جا سکتا ۔ خاص کر اس لئے کسی گرو پ خاص کو ان کا فیصلہ پسند نہیں آیا ہے ۔ ہائی کورٹ نے کہا کہ اسکول میں پیش کئے گئے ڈرامہ دنیا کے سامنے اس وقت آیا جب اسکول کے ایک شخص نے اپنے انٹرنیٹ میڈیا پر اس کے ویڈیو کو ڈالا ۔ عدالت نے پایا کہ عرضی گراز نے لوگوں کو سرکار کے خلاف جھگڑے کیلئے اکسانے یا جنتا کو جمع کرنے کے ارادے سے یہ قدم اٹھایا ہے ۔اس لئے کورٹ نے کہا کہ دفعہ 124(A) (بغاوت ) اور دفعہ 505(2) کیلئے درکار حالات کی کمی کے چلتے ان دفعات کو لگانا جائز ہے تو ہائی کورٹ نے اپنے حکم میں سرکار کو بھی یہ ہدایت دی ہے کہ وہ بچوں کو سرکار کی تنقید سے دور رکھیں۔ قابل غور ہے کہ 21جنوری 2020کو درجہ 4,5,6کے طلبہ نے سی اے اے اور این آر سی کے خلاف اسکول میں ایک ڈرامہ میں کردار نبھایا تھا۔ اے بی وی پی ورکر نلیش رکشلا کی شکایت پر چار لوگوں پر کیس درج ہوا تھا۔ جس میں دفعہ 504یعنی جان بوجھ کر توہین کرنا،505(2)و 124(A) یعنی بغاوت ،153A وغیرہ دفعات ان پر لگائی گئیں تھیں۔ کورٹ نے صاف کہا کہ وزیر اعظم کی تنقید کرنا بغاوت نہیں ۔ حالاںکہ یہ بے عزتی کے مترادف ضرور ہے۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟