نشانے پر سپریم کورٹ !

مہاراشٹر کی مہا وکاس اگھاڑی (این وی اے)حکومت گرنے میں گورنر کے رول پر پچھلے دنوں دئے گئے سخت ریمارکس کے بعد جس طرح سے دیش کے چیف جسٹس اور سپریم کورٹ کوٹرو ل کئے جانے لگا وہ صرف افسوس ناک ہے اور حیرت میں ڈالنے والا بھی ہے۔ سوشل میڈیا پر چلا یہ ابھیان اتنا سنگین تھا کہ ممبران پارلیمنت کے ایک گروپ نے صدر جمہوریہ محترمہ دروپدی مرمو سے مل کر معاملے میں دخل دینے کی درخواست کی ۔ چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندر چوڑ کی آن لائن ٹرولنگ کے معاملے میں 13اپوزیشن پارٹیوں کے نیتاو¿ صدر کو خط لکھا ہے ۔ انصاف کے راستے میں مداخلت کا الزام لگاتے ہوئے ان سے فوری اس معاملے صدر جمہوریہ سے فوراً ایکشن لینے کی مانگ کی ہے۔اپوزیشن پارٹیوں کو کہنا تھا کہ ہم سبھی جانتے ہیں کہ بھارت کے چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ کی سربراہی والی سپریم کورٹ کی آئینی بنچ مہاراشٹر میں سرکار کی تشکیل اور گورنر کے رو ل کے معاملے میں ایک اہم ترین آئینی اشو پر سماعت کررہی ہے۔ خط میں آگے کہا گیا ہے ۔یہ معاملہ زیر سماعت ہے اس درمیان مہا راشٹر میں حکمراں پارٹی کے مفاد کیلئے امکانی طور سے ہمدردی رکھنے والے ٹرول آرمی نے بھارت کے چیف جسٹس کے ایک جارحیت دکھائی ہے ۔ خط میں کہا گیا ہے کہ لفظ اور میٹر گندہ ہے۔ قابل ملامت ہے ۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر لاکھں میں لوگوں نے دیکھا ہے ۔یہ خط کانگریس ایم پی ویوک تنکھا نے لکھا ہے۔ اور پایمنٹ کے ایم پی دگ وجے سنگھ ،گتی سنگھ سہگل ، پرمود تیوای ، رنجیت رنجن ،عمران پر تاپ گڑھی ،عام آدمی پارٹی کے اوگھو چڈھا اور شیو سیبا یو بی ٹی ایم پی پرینکا چترویدی جیا بچن رام گوپالیادو کیلئے ذریوے دستخط شدہ ہے۔ خط میں تنکھا نے لکھا کہ اس مسئلے پر وینکٹ رمنا کو بھی الگ سے خط لکھا ہے جس میں الزام لگایا گیا ہے کہ مہارزژٹر کے سابق گورنر بھگت سنگھ کوشیاری کے فلور ٹیسٹ کیلئے ہاو¿س بلانے کی کاروائی جائز ہے ، سے متعلق ایک معاملے کی سماعت کے بعد آن لائن ٹرولز نے چیف جسٹس آف انڈیا اور عدالت پر حملہ شروع کردیا ہے ۔ گورنر کے عہدے کے مبینہ بجا استعمال سے متعلق ایک اشو کے سماعت کے بعد آن لائن ٹرولز نے سی جے آئی اور عدلیہ پر کٹاکش شروع کردیا ۔ گورنر کے عہدے کے بیجا استعمال کے معاملے اکثر سامنے آتے رہتے ہیں۔ لیکن پچھلے کچھ وقت نے ایسے معاملوںمیں تیزی سے اضافہ ہوگیا ہے۔ تمل ناڈر ،کیرل ،راجستھان تلنگانا ،چھتیس گڑھ محربی بنگال سے متعلق شکایت ہے کہ گورنر آفس کا رویہ ایسا ہے کہ جس سے ریاستی حکومت کا کام کاج متاثر ہو رہا ہے ۔ دہلی کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟