آبروریزی کی پہچان و بیان پر پابندی!
سپریم کورٹ نے دیش کی سبھی ہائی کورٹ عدالتوں کو آبروریزی متاثرہ خواتین کی پہچان اور ان کے بیان راز میں رکھنے کو لیکر اہم صلاح دی ہے ۔چیف جسٹس ادے امیش للت اور جسٹس بیلا ایم چتروید ی کی بنچ نے ماضی میں دئے گئے بڑی عدالت کے فیصلوں کو ایک بار پھر سے واضح کرتے ہوئے کہا کہ آئی پی سی کی دفعہ 164کے تحت آبروریزی کے معاملے میں جب تک چارج شیٹ یا فائنل رپورٹ داخل نہ ہوجائے تب تک متاثرہ کے بیان کا انکشاف کسی کے سامنے نہیں کیا جانا چاہئے ۔سپریم کورٹ نے اس کے ساتھ ہی ملک کی ہائی کورٹس کو صلاح دی کہ آبروریز یا جنسی استحصال کے معاملوں میں جرائم عمل کورٹ کی دفعہ 164کے تحت درج اہم ترین بیانوں سے متعلقہ مجرمانہ کاروائی یا ٹرائل کے قواعد میں مناسب ترامیم کی جائیں بنچ نے دو بچوں کی طرف سے دائر ایک توہین عرضی کا نپٹارہ کرتے ہوئے یہ صلاح دی جو اپنے ہی والد اور اس کے دوستوں کے ذریعے جنسی زیادتی کا شکار ہے ۔عرضی گزار کی وکیل تمنا اگروال نے اس سلسلے میں تجویز داخل کی اس میں ان کی طرف سے مانگ کی گئی کہ شیوبترا عرف تاکری شیوبترا بنام اترپردیش سرکار و دیگر کے معاملے میں بڑی عدالت کے ذریعے ڈکلیئر قانون کی مختلف تقاضو ں ودیگر عدالتوں کے ذریعے بنائے گئے جرائم مقدمہ قواعد میں شامل کیا جانا چاہئے ۔بنچ نے سینئر وکیل کی دلیل کو صحیح ٹھہرایا اور سبھی ہائی کورٹس کو اسے شامل کرنے کی صلاح دی ۔ اور دفعہ 164کے تحت درج بیان سپریم ہے اور اس میں کسی طرح کا سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا ۔جب تک دفعہ 173کے تحت چارج شیٹ یا فائنل رپورٹ دائر نہیں کی جاتی ۔دراصل بڑی عدالت تلنگانہ پولیس کے خلاف دائر توہین عدالت کی عرضی پر سماعت کر رہی تھی اس میں جارج شیٹ داخل نہ ہونے کے باوجود آبروریزی کے الزامات کو دفعہ 164کے تحت درج اہم بیانوں کی تہہ تک پہنچنے کی اجازت دی گئی تھی ۔ وکیل تانیہ اگروال نے دلیل دی تھی کہ اس معاملے میں بڑی عدالت کے ذریعے طے قانون کی تعمیل نہیں کی گئی ۔اور مطالبے مجسٹریٹ کے ذریعے 164کے تحت درج متاثرہ کے بیانوں پر ملزم کے ذریعے مختلف معاملوں میں وسیع طور سے بھروسہ کیا گیا تھا ۔ عرضی دائر کرنے والے عرضی گزار نے الزام لگا یا تھا کہ 164کے تحت ان کی بیٹی کا بیان آبروریزی کے معاملے میں ملزم کو ہی دے دیا گیا ۔ اس معاملے میں بنچ نے سخت ریمارکس دیتے ہوئے ان کو افسوس ناک قرار دیا ۔حالاںکہ اس معاملے میں بنچ نے توہین عدالت کے بارے میں کوئی کاروائی شروع نہیں کی۔
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں