حجاب کا موازنہ پگڑی سے کرنا غیر مناسب!

سپریم کورٹ نے کرناٹک حجاب معاملے کی سماعت کے دوران جمعہ کو جسٹس ہیمنت گپتا نے کہا کہ حجاب سے سکھ کی پگڑی کا موازنہ کرنا ٹھیک نہیں ہے ۔ پانچ ججوں پر مشتمل آئینی بنچ یہ طے کر چکی ہے کہ پگڑی اور کرپان سکھ دھرم کی پہچان کا ضروری حصہ ہے۔ سکھو کے پانچ سو برسوں کی تاریخ اور آئین کے مطابق یہ بھی سب سے اہم حقیقت ہے اس لئے سکھو سے موازنہ کرنا ٹھیک نہیں ہے ۔ سپریم کورٹ نے یہ رائے زنی حجاب کے حمایتی عرضی گزاروں کے وکیل نظام پاشا کی دلیل کے دوران کی تھی۔ پاشا کا کہنا تھا کہ سکھ مذہب کے پانچ اصولو ں کی طرح اسلا م کے بھی پانچ بنیاد ی ستون ہیں ۔ نظام کا کہنا تھا کہ حج،نماز ،روزہ، زکاة ،توحید اور حجاب کو اسلام کے پانچ بنیادی ستون بتا یا تھا۔ جسٹس گپتا نے انہیں ٹوکا تونظام پاشا نے کہا کہ ہمارا بھی یہی کہنا ہے کہ 1400برس سے حجاب بھی اسلامی روایت کاحصہ رہا ہے ۔ لہذا کرناٹک ہائی کورٹ کا نتیجہ غلط ہے، نظام پاشا سے پہلے عرضی گزاروں کی طرف سے وکیل دیو دت کامت نے کہا کہ بنیادی حقوق پر واجب پابند ی ہو سکتی ہے لیکن یہ تبھی ممکن ہے جب یہ قانون سسٹم ،اخلاقیات یا ہیلتھ کے خلاف ہو ۔یہاں لڑکیوں کا حجاب پہننا نہ توقانون و سسٹم کے خلاف ہے نہ ہی اخلاقیات اور ہیلتھ کے خلاف ہے ۔ آئین کے مطابق سرکار کا حجاب پر پابندی کا حکم واجب نہیں ہے ۔ کامت نے کہا کہ ہر مذہبی روایت ضروری نہیں کہ کسی مذہب کا ضروری حصہ ہی ہو لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس پر سرکار پابندی لگادے ۔ روایت کے قانون ونظام یا اخلاقیات کے خلاف ہونے پر ہی سرکار کو یہ حق حاصل ہے ۔ کامت نے دلیل دی کہ میں پیدائش سے پگڑی پہنتا ہوں ۔ سینئر وکیل بھی عدالتی کیپ پہنتے ہیں لیکن کیا یہ کسی بھی طرح سے عدالت کی ڈسپلن کی خلاف ورزی ہے؟ اس پر ججوں نے کہا کہ آپ عدالت میں پہنی جانے والی ڈریس کا موازنہ اسکول ڈریس سے نہیں کر سکتے ۔ بدھوار کو سینئر وکیل راجیو دھون نے بھی پگڑی کا حوالہ دیا تھا لیکن پگڑی بھی ضروری نہیں کہ مذہبی پوشاک ہی ہو۔ موسم کی وجہ سے راجستھان میں بھی لوگ اکثر پگڑی پہنتے ہیں ۔ جسٹس ہیمنت گپتا نے کہا کہ سڑک پر حجاب پہننے سے بھلے ہی کسی کو دقت نہ ہو لیکن سوال سکول کے اندر حجاب پہننے کو لیکر ہے ۔ سوال یہ ہے کہ اسکول انتظامیہ جس طرح کا نظام بنائے رکھنا چاہتا ہے اس پر سپریم کورٹ نے کہا کہ یہاں سوال صرف اسکولوں میں پابندی کے بارے میں ہے ۔ اور کسی کو حجاب پہننے کیلئے منع نہیں کیا گیا ہے ۔ وکیل دیو دت کامت کا کہنا تھا کہ افریقہ کے اسکول میںناک میں لونگ پہننے کی اجازت دی گئی تھی یہ وہاں کلچر کا حصہ ہے ۔ اس پر جسٹس ہمنت گپتا نے کہا کہ لونگ دھرم کا حصہ نہیں ہے ،منگل سوتر ہے۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟