ہر تیسری عورت گھریلو مارپیٹ کا شکار!

خواتین کی حفاظت کے لئے تمام قاعدے قانون خاص کر گھریلو تشدد قانون 2005ہونے کے باوجود دیش میں ہر تین عورتوںمیں سے ایک عورت گھریلو مارپیٹ کا شکار ہے ۔گھروں میں ہونے والی اسطرح کے تشدد کے معاملے زیادہ تر قطع نہیں چلتے اس کی وجہ سے عورت کا اقتصادی طور سے شوہر یا خاندان پر ذمہ دار ہونا ہے ۔وہیں گھریلو تشدد معاملے میں جھگڑوں کا سبب آپسی نااتفاقی ہونا بھی اس کی بڑی وجہ ہے یہ بات آئینی ایپکس کے سروے میں سامنے آئی ہے جس میں این سی آر اور نیشنل فیملی ہیلتھ رپورٹ کے اعداد شمار کی بنیاد پر بتایا گیا ہے اس کی وجہ عورتوں سے جڑے جرائم میں سزا نہ ملنا بھی ایک بڑی وجہ ہے ۔جرائم قانون کے ماہر ڈاکٹر ایم پی شرما کا کہنا تھا گھریلو تشدد کے معاملوں کی زیادہ تر شکایت نہیں کی جاتی اس تشدد کے وہی معاملے در کئے جاتے ہیں جن میں تشددسنگین قسم کا ہوتا ہے ۔بیوی کے ساتھ گھر میں مارپیٹ اذیت رسانی اور عام طور سے اچھا برتاو¿ نا ہونا گھریلو تشد د ہے لیکن اسے رپورٹ نہیں جاتا ایسے معاملے بڑے شہروں میں جو سامنے آجاتے ہیں لیکن چھوٹے قصبوں دیہات سے اس طرح کے معاملے تھانے تک نہیں جاتے ۔ان کا کہنا تھا کہ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ قانون کی جانکاری ہونے کے باجود بھی عورت کو گھر میں ٹارچر کیا جاتا ہے عورتیں جرم سہتی ہیں لیکن جرم کی رپورٹ نہیں کرتیں یہ زیادہ تر ایسے معاملات میں ہوتا ہے جہاں عورتیں مالی تنگی سے شوہر یا پریوار پر منحصر ہیں دوسرے سماج کا رخ بھی ایک اہم ترین پہلو ہے ۔شوہر یا پریوار کی شکایت لے کر پولیس میں جانے والی عورت کو سماج میں اچھی نظروں سے نہیں دیکھا جاتا پھر بھی وہ شکایت ہے کرتی ہے تواس کی کوئی بات سنی نہیں جاتی اور وہ اکیلی پڑ جاتی ہے کئی بار پولیس بھی ایسے معاملوں کو ایسے گھریلوں معاملوں کو بات چیت کے ذریعے رفع دفع کرانے کی کوشش کرتی ہے ۔اور ایسے معاملوں میں کاروائی سے گریز کرتی ہے ۔ہاں اگر سنگین معاملہ ہوتو وہی پولیس حرکت میں آجاتی ہے ۔ان اسباب سے متاثرہ عورت کے پاس سمجھوتہ کرنے کے بجائے کوئی راستہ نہیں ہوتا عورتوں کے خلاف جرائم میں سزا دی جانے کی شرح محض 23.7فیصدی ہے ۔جبکہ وہیں اس طرح کے معاملوں کے لٹکے ہونے کی شرح 91.2ہے اس کا سبب خصوصی عدالتوں کا کاروائی میں لمبی ہونا اور ڈھیلائی برتنا گواہوں کا سامنے نہ آنا بھی ایک وجہ ہے ۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟