ویکسین کی لاکھوں ڈوز برباد !

ایک طرف جب دیش میں کووڈ 19کے سبب روزانہ 15سو سے زیادہ لوگوں کی جان جانے لگی ہے وہیں کئی ریاستوں سے کورونا ویکسین کی کمی کی شکایتین سننے کو مل رہی ہیں ، اس وقت یہ چونکانے والا انکشام ہوا ہے کہ 11اپریل تک دیش میںٹیکے کی 44.5لاکھ سے زیادہ ڈوز بربا د ہوگئی ہیں دیش میں 16جنوری سے ویکسی نیشن مہم شروع ہونے کے بعد سے 11اپریل تک یہ ڈوز برباد ہوئی ہے ٹیکے کی بربادی میں سب سے آگے تامل ناڈو ہے حکومت نے یہ معلومات آر ٹی آئی رضا کار اور فری لانس جنرلسٹ وی ویک پانڈے کے ذریعے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں دی گئی سرکار کی طرف سے دستیاب اعداد شمار کے مطابق 11اپریل تک ریاستوں کو ٹیکے کی قریب 10.34کروڑ ڈوز جاری کی گئی جس میں 44.78لاکھ سے زیادہ ڈوزمختلف وجوہا ت کے سبب بے کا ر ہوگئیں سب سے زیادہ ڈوز 12فیصدی تامل ناڈو میں برباد ہوئی اس کے بعد ہریانہ میں 9.74فیصد، پنجاب میں8.12فیصد ،منی پور میں 8.8فیصد ، تلنگانہ میں 7.55فیصد ڈوز ضائع گئیں وہیں کیرل، بنگال ہماچل ، میزورم، گوا ،انڈمان نکو بار اورلکچھدیپ جیسی ریاستیں اور مرکزی حکمراں ریاستیں ہیں۔جہاں ویکسین کی ڈوز نہ کے برابر برباد ہوئی قابل ذکر ہے کہ دیش میں کورونا ویکسین کو لیکر غیر بھاجپا حکمراں ریاستوں اور مرکز کے درمیان جم کر سیاست جاری ہے ۔ مہاراشٹر پنجاب اور دہلی کی حکومتیں مرکز پر الزام لگاتی رہی ہیں کہ انہیں گجرات کے مقابلے ویکسین کا اسٹاک کم ملا مرکزی سرکار کے ذریعے پیر کو یعنی پہلی مئی سے 18سال کے اوپر سبھی لوگوں کو ٹیکہ لگانے کی اجازت دینے کے بعد دیش بھر میں انجیکشن لگانے کی مہم کو اور رفتار ملنے کی امید ہے ۔دیش بھرمیں ویکسین کی بھاری مانگ کو دیکھتے ہوئے مرکزی سرکار نے بیرونی ممالک میں استعمال ہورہی الگ الگ کورونا ویسکین کی بھی بھارت میں برآمدات کی اجازت دے دی ہے ۔ ویکسین کی بربادی قابل برداشت نہیں ہے اسے فوراً روکنے کے اقدامات ہونے چاہئے ماہرین کا کہنا ہے ٹیکہ رکھنے کے ساز و سامان اور بہتر رکھ رکھاو¿ ہونا چاہئے ۔ اور ہر مرحلے میں زیادہ سے زیادہ سو سے زیادہ ٹیکے لگائے جانے چاہئے جب تک 10لوگ موجود نہ ہوں تب تک سی سی نہ نکالی جائے ایک سیسے میں 10ڈوز ہوتی ہیں اگر دس سے کم لوگ ہوں گے تو ڈوز بچ جائے گی اگر اس کو احتیاط سے اسٹور نہ کیا جائے تو وہ برباد ہوجائے گی ۔ تاکہ سیسی میں دستیاب سبھی خوراک استعمال ہوسکے کووڈ 19سے لڑائی میں ہم اس وقت جس موڑ پر کھڑے ہیں اس سے اب کسی لاپرواہی کیلئے جگہ نہیں ہے بلکہ وہ جنتا کی ہی نہیں بلکہ پوری انسانیت کیلئے لاپرواہی مانی جائے گی ۔ واضح ہو ویکسی نیشن مہم کی شروعات سے پہلے باقاعدہ مشق کی گئی تھی اس کا پروٹوکول طے ہوا تھا اس کے باوجود اگر یہ غلط ہے تو ہمیں اپنی ناگہانی مشینری پر غور کرنے اور بغیر وقت گنوائے اسے چست کرنے کی ضرورت ہے۔ ریاستی سرکاروں کو بھی اپنے طریقے کار پر دھیان دینے کی سخت ضرورت ہے دیش کے شہری اس وقت تکلیف میں ہیں تو ایسا کچھ بھی نہیں ہونا چاہئے جس سے ان کی تکلیف اور بڑھ جائیں لوگ غم کو سہہ لیتے ہیں اگر انہیں یہ نظر آتا ہے کہ مدد گاروں نے ایمانداری سے کام کیا ہے اس لئے زندگی بخش سامان کی بربادی کالا بازاری کو مرکز اور ریاستی حکومتوں کو ہر حال میں روکنا ہوگا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟