کسانوں کو ڈرہے ایم ایس پی سسٹم بے جواز ہوجائے گا!

نئے کھیتی قانون کی مخالفت کررہے کسانوں سے بات کرنے کے لئے مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ سامنے آئے اور انہوں نے منگل کی رات تیرہ کسنا لیڈروں کے گروپ سے ملاقات کی لیکن یہ بھی بے نتیجہ رہی بات چیت کے بعد کسان لیڈروں نے کہا بدھ کے روز مرکزی سرکار کے ساتھ ہونے والی چھٹے دور کی ملاقات منسوخ ہوگئی ہے ۔ اب سرکار کی طرف سے تحریری تجاویز ملے گی جس پر کسان انجمنیں غورکریں گی یہ تجویز قانون میں ترمیم کولیکر ہوگی ۔ کسان لیڈر ہنان ملا نے بتایا کہ سرکار قانون کو پوری طرح واپس لینے کے لئے راضی نہیں ہے ایسے میں ہم ان کی تجویز پر غور کریں گے اس کے بعد آگے کی حکمت عملی طے ہوگی کسان انجمنوں کا کہنا ہے اگر مودی سرکار نے زرعی قوانین کو واپس نہیں لیا تو آنے والے وقت میں ان کی پیداوار اجناس کو آنے پونے دام ملنے والی ایم ایس پی کی گارنٹی ختم ہوجائے گی ۔ دا فارمرس پروڈیوژ ہیڈ ٹریڈ اینڈ کامرس 2020زرعی قانون کے مطابق کسان اپنی پیداوار اے پی ایم سی یعنی اگریکلچر پرودیوژ مارکیٹ کمیٹی کی طرف سے نوٹی فائیڈ منڈیوں سے باہر بے غیر دوسری ریاستوں کا ٹیکس دیئے بیچ سکتے ہیں ۔ دوسرا قانون کامرس امپاور مینٹ اینڈ پروٹیکشن اگریمینٹ آن پرائس اینسورینس اینڈ فارمرس سروس قانو ن 2020کے مطابق اگر کسان ٹھیکے والی کھیتی کر سکتے ہیں اور سیدھے اس کی مارکیٹنگ کرسکتے ہیں ۔تیسرا قانون ہے اشئیائے ضروریہ ترمیم قانون اس میں پیداوار اسٹوریج کے علاوہ اناج دال خوردونی تیل پیاز کی بکری کو غیر معمولی حالات کو چھوڑ کر کنٹرول سے آزاد کردیا گیا ہے ۔ سرکار کی دلیل ہے نئے قانون سے کسانوں کے لئے زیادہ متبادل کھلیں گے ان قیمت کو لیکر اچھا بھاو¿ ملے گا ۔ کسانوں کا احتجاجی مظاہرے میں سب سے بڑا جو ڈر ہے ڈر ابھر کر سامنے آیا ہے جو یہ ہے کہ ایم ایس پی کا سسٹم بے جواز ہوجائے گا اور انہیں اپنی پیداوار لاگت سے بھی کم قیمت اپنی پیداوار کو بیچنے کے لئے مجبور ہونا پڑے گا ۔ ایم ایس پی سسٹم کے تحت مرکزی سرکار زرعی لاگت کے بھاو سے کسانوں کی فصل خریدنے کے لئے ایم ایس پی طے کرتی ہے فصلوں کی بوائی کے موسم میں کل 23فصلوں کے لئے سرکار ایم ایس پی طے کرتی ہے ۔2015 میں شاندار کمیٹی نے نیشنل سیمپل سروے کا جو ڈاٹا استعمال کیا تھا اس کے مطابق صرف 6فیصدی کسان ہی ایم ایس پی شرح پر اپنی فصل بیچ پاتے ہیں کسانوں کو یہ بھی ڈر ہے کہ اے ایم سی منڈی کے باہر ٹیکس مستثنیٰ کاروبار کے سبب منڈی سے لیکر پرائیویٹ منڈی تک ضروری بنائی جائے تاکہ سبھی طرح کے خریدار چاہے سرکاری ہو یا پرائیویٹ سب ایم ایس پی کی طے شدہ شرح سے نیچے اناج نہ خریدیں سرکار جو فصل خریدتی ہے اس کا سب سے بڑا پنجاب و ہریانہ سے آتا ہے پچھلے پانچ سال کے اعداد وشمار دیکھیں تو سب سے زیادہ چاول و گیہوں کی خرید پنجاب و ہریانہ سے ہوئی زرعی لاگت اور سی ایس پی و بینچ مارک سیٹ کرنے کےلئے 22سے زیادہ فصلوں کی ایم ایس پی کا اعلان کرتا ہے سی اے سی پی حالانکہ ہر سال زیادہ فصلوں کے لئے ایم ایس پی کا اعلان کرتا ہے مگر متعلقہ ریاستوں کے زریعے اکٹھا اناج خرید کی ایجنسیاں اور فوڈ کارپوریشن آف انڈیا بھنڈار کرنے کے لئے پیسے کی کمی کے سبب ان وقیمتوں پر صرف چاول اور گیہوں خریدتی ہے ہم امید کرتے ہیں کہ مرکزی سرکار کسانوں کے خدشات دور کرے گی اور اس پیچیدہ مسئلے کا جلد کوئی حل نکل جائے گا ہمیں نھیں لگتا بنا قانون میں ترمیم کئے کوئی دوسرا راستہ نکلے گا۔ (انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟