مدھیہ پردیش ۔راجستھان میں بھاجپا کی حالت پتلی

نومبر۔ دسمبر میں پانچ ریاستوں میں ہونے جارہے اسمبلی انتخابات کے نتیجے 2019 لوک سبھا چناؤ کی سمت اور پوزیشن طے کریں گے۔ اس لئے اگر انہیں سیمی فائنل کہا جائے تو شاید غلط نہ ہوگا۔ ان اسمبلی چناؤ کے بعد عام چناؤ کی بساط بھی بچھ جائے گی۔ ان ریاستوں میں جو پارٹی بہتر پرفارمینس پیش کرے گی وہ اپنے حق میں ماحول بناتے ہوئے عام چناؤ کے دنگل میں اترے گی۔ کانگریس ۔بھاجپا حکمراں ریاستوں راجستھان، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں اقتدار مخالف رجحان کا فائدہ اٹھانے کی کوشش میں ہے۔ وجود کی لڑائی لڑ رہی کانگریس اگر ان تین ریاستوں میں کامیاب ہوتی ہے تو وہ بھاجپا کی کامیاب کی ساکھ پر گہرا حملہ ہوگا۔ ان تینوں ریاستوں میں بھاجپا کو کانگریس سے زبردست چنوتی ملنے کے آثار ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان انتخابات کو 2019 کے چناوی مہا سمر کی کسٹوتی مانا جارہا ہے۔ ان اسمبلی انتخابات کے نتیجے کے بعد ہی اپوزیشن مہا گٹھ بندھن کی سمت طے ہوتی ہے۔ اگر بی جے پی کا ان چناؤ میں نتیجہ بہتر رہا تو پھر علاقائی پارٹیاں دفاع کی پوزیشن میں آسکتی ہیں ساتھ ہی وہ اتحادی پارٹیاں جو چناؤ سے پہلے بھاجپا پر دباؤ بنانے کی کوشش کررہی ہیں ان کے تیور بھی نرم پڑ سکتے ہیں لیکن اگر اس کے برعکس نتیجہ ہوا تو پھر نہ صر ف اپوزیشن کو 2019 میں امید کی کرن دکھائی دے گی بلکہ وزیر اعظم نریندر مودی کی ساکھ کو بھی زبردست دھکا لگے گا۔ بھاجپا اپنی کامیاب ساکھ کو بنائے رکھنے کیلئے پوری کمپین وزیر اعظم نریندر مودی کے ارد گرد ہی مرکوز رکھنے کی اسکیم بنا رہی ہے۔ اقتدار مخالف لہر سے نمٹنے کے لئے ان ریاستوں میں وزراء اعلی کو کنارے ہی رکھا جائے گا۔ اپوزیشن کے اتحاد میں کانگریس کی حصہ داری اور رول کتنا ہوگا ، کیسا ہوگا اس کا بھی ان پانچ ریاستوں کے اسمبلی چناؤ نتائج سے اندازہ ہوجائے گا۔ چناؤ سے پہلے بی ایس پی اور سپا جیسی پارٹیوں نے کانگریس سے اتحاد کرنے سے انکار کردیا تھا۔اگر چناؤ میں کانگریس بہتر نتیجہ دکھائے تو پھر اپوزیشن اتحاد میں کانگریس کی جانب سے راہل گاندھی کی پوزیشن مضبوط ہوگی۔ سال 2014 کے عام چناؤ کے بعد صحیح معنوں میں بی جے پی کے لئے پہلی بار اصل امتحان ہوگا۔ 2014 میں بی جے پی کی جانب سے عام چناؤ میں بڑی جیت کے بعد دو ایسی ریاستوں میں چناؤ ہوئے ہیں جہاں بی جے پی کی سرکار پہلے سے تھی۔ اس بار مدھیہ پردیش ،راجستھان اور چھتیس گڑھ میں بی جے پی سرکاریں ہیں۔ پارٹی اینٹی کمبینسی فیکٹر سے کس طرح نپٹے گی اس کا بھی پتہ چلے گا۔ حالانکہ میں ان سرووں پر زیادہ بھروسہ نہیں کرتا پھر بھی مدھیہ پردیش ، چھتیس گڑھ ، راجستھان کے چناؤ میں تاریخ کے اعلان کے بعد آئے اوپینین پول میں بی جے پی کے لئے بری خبر ہے۔ اے بی پی نیوز سی ووٹر سروے کے مطابق تینوں ریاستوں میں بی جے پی کی ہاتھ سے اقتدار نکل سکتا ہے۔ اس میں یہ صاف اشارے ہیں کہ پچھلی ڈیڑھ دھائی سے چھتیس گڑھ، مدھیہ پردیش اور راجستھان میں جنتا کا حکمراں بھاجپا سے دل بھر گیا ہے۔ ایک اور دلچسپ بات یہ سامنے آئی ہے کہ مدھیہ پردیش میں کانگریسی نیتا جوتر آدتیہ سندھیا اور راجستھان میں سچن پائلٹ کانگریس کی پہلی پسند ہیں۔ تینوں ہی ریاستوں میں کانگریس کے حق میں سروے آئے ہیں۔ 
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟