زور آزمائش کا اکھاڑا بن رہا ہے سیریا

شام میں مشتبہ کیمیکل حملوں کے جواب میں امریکہ کی قیادت میں برطانیہ ، فرانس نے ایتوار کی صبح چار بجے شام پر حملہ کردیا۔ قریب ایک گھنٹے کے اندر 120 میزائلیں داغی گئیں۔ سیریا کی راجدھانی دمشق اور حمس صوبہ کو نشانہ بنایا گیا۔ امریکہ کے وزیر دفاع جیمس میٹز نے کہا کہ حملہ میں ہوئے نقصان کا ابھی جائزہ نہیں لیا گیا ہے آگے اور حملہ کرنے کا امکان ہے لیکن کہا یہ محض ایک حملہ ہے اور اس حملہ کے احتجاج میں اور صدر اسد کی حمایت میں سینکڑوں لوگ صبح راجدھانی دمشق کی سڑکوں پر نکل آئے اور ایک چوک پر اکٹھے ہوکر شام ،روسی اور ایرانی جھنڈے لہرائے گئے۔ شام حکومت نے تین لوگوں کے زخمی ہونے کی تصدیق کرتے ہوئے کسی کی موت سے انکار کیا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ ہم نے ان حملوں سے شام کے صدر بشرالاسد کے کیمیائی ہتھیاروں کے 20 فیصد ذخیرے کو تباہ کردیا ہے۔ ادھر شام کی فوج اور روس نے دعوی کیا دو تہائی میزائلوں کو ہوا میں ہی تباہ کردیا گیا۔ ان میں ہوائی ٹھکانوں کی طرف آرہی 14 میزائلیں بھی ہیں، حملہ نا کام رہا۔ یہ امریکہ کا شام پر ایک سال میں دوسرا بڑا حملہ ہے۔ فوجی ماہرین کے مطابق اس مشترکہ حملہ میں قریب 1700 کروڑ روپے کی میزائلیں داغی گئیں۔ شام کے صر بشرالاسد کے خلاف سات سال پہلے شروع ہوئی پرامن بغاوت خانہ جنگی میں بدل گئی ہے۔ سات سال پہلے شامی شہری بیروزگی، کرپشن اور سیاسی آزادی پر لگام کسنے کی شکایت کے ساتھ سڑکوں پر اترے تھے۔ کیمیکل حملہ اور میزائلوں کے حملہ سے دنیا کے کئی دیش دو گروپوں میں بنٹ گئے ہیں ۔ ایک گروپ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ کھڑا نظر آتا ہے تو دوسرا اسد گروپ کی حمایت میں روس کے ساتھ سر ملا رہا ہے۔ امریکہ کے ساتھ فرانس، برطانیہ، آسٹریلیا، جرمنی، ترکی، جارڈن، سعودی عرب، اٹلی، جاپان، نیدرلینڈ، نیوزی لینڈ، اسرائیل ، اسپین سمیت کئی دیش ساتھ ہیں۔ دوسری طرف صدر اسد کی حمایت کررہے روس کے ساتھ ایران اور چین ہیں ان دیشوں نے حملہ کی مخالفت کی ہے۔ امریکہ ، فرانس اور برطانیہ کی طرف سے شام میں سنیچرکی صبح حملوں کا ویسے تو ایک ہفتے پہلے ہوئے کیمیائی حملوں کے جواب میں کی گئی کارروائی بتایا جارہا ہے لیکن خانہ جنگی کی آگ میں جل رہا شام اب امریکہ سمیت مغربی ملکوں روس اور اس کے ساتھیوں کے لئے زورآزمائش کا میدان بنتا جارہا ہے۔ سبھی ملکوں کو اپنے اپنے ہتھیاروں کا تجربہ کرنے کا موقعہ مل گیا ہے۔ امریکہ اور روس دونوں ہی اپنے اپنے جدید ہتھیاروں کو استعمال کررہے ہیں اور یہ سب شام کی جنتا کوتباہ کرنے کے لئے کیا جارہا ہے۔ فرانسیسی صدر ایمنول میکرو نے کہا کہ شام حکومت کی کیمیائی ہتھیاروں کی پیداوار اور ان کے استعمال کی صلاحیت کو ٹارگیٹ بنا کریہ حملے کئے گئے ہیں۔ ہم کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال برداشت نہیں کرسکتے۔ برطانوی وزیر اعظم تھریسامیا نے کہا کہ شام میں فوجی طاقت کے استعمال کے علاوہ کوئی متبادل یا دوسری طرف روس کے صدر ولادیمیرپوتن نے حملہ کو جارحانہ حرکت قرار دیا ہے اور کہا کہ یہ شام میں انسانی بحران اور بڑھائے گا۔ ایران کے سینئرلیڈر آیت اللہ علی خمینی نے امریکی صدر ٹرمپ اور فرانس کے مائیکرو اور برطانیہ کی تھیریسا میں کی شام میں حملوں کو لیکر مذمت کرتے ہوئے انہیں مجرم قراردیا۔ایران کے وزارت خارجہ نے کہا امریکہ اور اس کے ساتھیوں کے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے۔ شام کے صدر بشرالاسد نے کہا کہ اس حملہ نے حریفوں کے خلاف جوابی کارروائی کے لئے اور زیادہ خواہشمند بنایا ہے اور یہ جارحیت شام اور اس کے لوگوں کو دیش میں دہشت گردی کو کچلنے کے لئے اور پرعزم بنائے گی۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟