اور اب سپا ۔بسپا میں بھاجپا نے لگائی سیندھ

بھاجپا صدر امت شاہ کا تین دن کے لئے لکھنؤ پہنچنا اورسماجوادی پارٹی و بہوجن سماج پارٹی کے تین اسمبلی ممبروں کا استعفیٰ دینا نہ تو اتفاق ہے اور نہ ہی حیرت انگیز۔ بھلے ہی واقعہ اچانک کیوں نہ رونما ہواہو لیکن اس کی تیاری کافی پہلے سے چل رہی تھی۔ بھاجپا کی قومی سیاست میں نریندر مودی اور امت شاہ کے جارحانہ انداز میں حریفوں پر حملہ کرنے والے سیاسی دھرندروں کے لئے خاص موقعوں پر دوسری پارٹیوں میں بھگدڑ مچنے کا حکمت عملی سندیش دلانا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ لوک سبھا چناؤ 2004ء میں پردیش میں لوک سبھا کی گوتم بدھ نگر سیٹ سے کانگریس کے ٹکٹ پر چناؤ لڑ رہے راجیش تومر کے ذریعے نامزدگی کے بعد استعفیٰ دے کر بھاجپا میں شامل ہونے کے واقعہ سے اس کی شروعات ہوئی تھی۔ جس سے کانگریس میں بھگدڑ کا سندیش جائے۔ صاف ہے شاہ کے لکھنؤ میں مشن2019ء کا خاکہ طے کرنے کے لئے آنے کے ساتھ ہی ان تین اسمبلی ممبروں کا ایوان اور اپنی پارٹی سے استعفیٰ بھی اسی حکمت عملی کا ایک حصہ ہے۔ بھلے ہی بھاجپا نیتا ان دونوں پارٹیوں کا اندرونی معاملہ بتاکر پلہ جھاڑرہے ہیں۔ بھلے ہی لکھنؤ میں واقعہ اچانک رونما ہوا ہو لیکن جس طرح سے شاہ کے تین روزہ دورہ لکھنؤ قیام کے دوران شروع ہونے سے پہلے ہی سنیچر کی صبح سے ہی استعفے شروع ہوئے اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ ان کی ڈور شاہ کے لکھنؤ دورہ اور مشن 2019ء کے آغاز سے جڑی ہے۔ کہانی بھی سوچ سمجھ کر اتنے ہی ٹیلنٹ سے لکھی گئی تھی جیسے کے بہار میں تھی تاکہ حریف پارٹیوں میں بھگدڑ کا پیغام جائے۔ صدارتی عہدے پر رامناتھ کووند کی حلف برداری کے اگلے دن بہار کے وزیر اعلی نتیش کا استعفیٰ اور لالو یادو سے رشتہ توڑکر بھاجپا کے ساتھ سرکار بناکر این ڈی اے میں واپسی، اترپردیش سے پہلے امت شاہ کے گجرات قیام کے دوران وہاں کانگریس کے 6 ممبران اسمبلی سے استعفیٰ اب شاہ کے اترپردیش قیام سے شروع ہونے کے ساتھ ہی سپا کے دو ایم ایل سی یشونت سنگھ اور بکل نواب اور بسپا کے ایک ایم ایل سی ٹھاکر جے ویر سنگھ کا ودھان پریشد کے ایوان سے ممبر شپ اور اپنی اپنی پارٹیوں سے استعفیٰ یہ بتاتا ہے کہ بھگوا حکمت عملی کے تحت پردیش میں آپریشن حریف شروع ہوچکا ہے۔ اس میں کہیں نہ کہیں کسی طور سے اکھلیش یادو سے ناراض اور خود کو بے عزت محسوس کررہے سپا کے سرپرست ملائم سنگھ یاد و کی حمایت بھاجپا کے حکمت عملی سازوں کو کسی نہ کسی شکل میں حال ہے پارٹی ذرائع کے مطابق ودھان پریشد کے کئی ممبروں پر بھاجپا کے سینئرنیتاؤں کی نگاہیں مہینوں سے لگی ہوئیں تھیں۔اسے اتنے چپ چاپ ڈھنگ سے انجام دیا گیاسپا ۔بسپا کے بڑے نیتاؤں کو بھنک تک نہیں لگ سکی۔بھاجپا مخالف پارٹیوں میں شروع ہوئی اتھل پتھل رکنے والی نہیں ہے، یہ آگے اور بڑھے گی۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟