برطانوی پارلیمنٹ پرحملہ

بلجیم کی راجدھانی بروسیلزپر آتنکی حملہ کی پہلی برسی پر بدھوار کو لندن برطانوی پارلیمنٹ کو نشانہ بنایا گیا۔ حملہ آور نے فرانس کے نیس شہر میں ہوئے ٹرک حملے جیسا حملہ کرنے کی کوشش کی۔ کار سوار حملہ آور نے تیز رفتار سے کار پارلیمنٹ کی طرف جانے والے ویسٹ مسٹر برج پر درجن بھر پیدل مسافروں کو کچل دیا۔ چشم دید گواہوں کے مطابق کار کی ٹکر اتنی زبردست تھی کہ کچھ لوگ ٹیمس ندی میں جا گرے۔ یاد رہے جولائی 2016ء میں نیس میں ٹرک سوار خودکش حملہ آور نے 83 لوگوں کو کچل ڈالا تھا۔ برطانیہ کی پارلیمنٹ کو بدھوار بروسیلز کے ہوائی اڈے پرہوئے فدائی حملے کی پہلی برسی پر نشانہ بنایا گیا۔ برسیلز حملے میں تین فدائی حملہ آوروں نے دھماکہ کیا تھا جس میں 36 لوگ مارے گئے تھے۔ لندن حملے کی ذمہ داری اسلامک اسٹیٹ نے لی ہے۔ آتنکی تنظیم کی طرف سے کہا گیا ہے کہ خلیفہ کے سپاہی نے اس حملے کو انجام دیا۔ برطانوی پرائم منسٹر ٹیزا نے ہاؤس آف کامنس کو بتایا کہ حملہ آور آئی ایس کی آئیڈیالوجی سے متاثر تھا اور اس نے اکیلے ہی واردات کو انجام دیا تھا۔ برطانوی پولیس کے مطابق 52 سالہ خالد مصطفی برطانیہ میں پیدا ہوا تھا اور یہاں کٹر پسندی خطرے کو لیکر ایک بار پھر اس کی جانچ بھی کی گئی تھی۔ واردات میں ایک حملہ آور سمیت 4 لوگوں کی موت ہوچکی ہے اور 40 لوگ زخمی ہوئے۔ برطانیہ کی پارلیمنٹ پر حملے کی کوشش کے درمیان ہاؤس آف کامنس میں قریب400 ممبران پارلیمنٹ موجود تھے ۔ وہ سبھی آس پاس ہورہی وارداتوں اور اس کے بعد پولیس چھان بین کے درمیان کئی گھروں تک پارلیمنٹ بھون کے اندر بند رہے۔ ٹیریزا حکومت نے خارجی امور کے وزیر ٹیبیس ایلبٹ نے پارلیمنٹ کمپلیکس کے باہر آکر حملہ آور کے چاقو سے زخمی ہوئے پولیس ملازم کا بہتا خون روکنے کی کوشش بھی کی۔ بتایا جاتا ہے تمام کوششوں کے باوجود بری طرح زخمی پولیس والے نے بعد میں دم توڑ دیا۔ آئی ایس کے خلاف مہم کے بعد برطانیہ آتنکی حملے کو لیکر دوسرے سب سے زبردست الرٹ پر تھا۔
لندن میں مئی 2013ء میں ایسے ہی ایک واقعہ میں دو برطانوی آتنک وادیوں نے ایک فوجی پر چاقو سے حملہ کر اس کی جان لے لی تھی جبکہ جولائی2005ء میں لندن کے ایک میٹرو اسٹیشن پر ہوئے حملے میں 22 لوگوں کی جان چلی گئی تھی۔ پچھلے کچھ عرصے پورا یوروپ آئی ایس کے نشانے پرہے۔ کبھی بروسیلز تو کبھی فرانس تو کبھی برطانیہ تو کبھی جرمنی۔ تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ برطانیہ میں ہورہے آتنکی حملے برطانیہ میں پیدا ہوئے شہری ہی کررہے ہیں۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟