نوٹ بندی کے 50 دن: کیا کھویا کیا پایا۔۔۔1
زیادہ ترا شوز پر ہم نے حکومت کا تب ساتھ دیا ہے جب ہمیں لگا کہ اس سے دیش کو فائدہ ہوگا اور جنتا کے مفاد میں ہے۔ جب ہمیں لگا کہ اس اشو سے دیش کی عوام کو نقصان ہوگا تو ہم نے سرکار کی مخالفت کی ہے۔ ہم عوام کو جوابدہ ہیں نہ کہ کسی سیاسی پارٹی یا اس کی سرکار کو۔ ایک صحافی کا پہلا فرض ہے کہ وہ عوام کی آواز اٹھائے اس لئے ہم نے اس کالم کا نام رکھا ہے ’’آج کی آواز‘‘ 8 نومبر کو جب وزیر اعظم نریندر مودی نے ڈیمونیٹائزیشن یعنی ’نوٹ بندی‘ کا اعلان کیا تھا تبھی سے مجھے لگا کہ یہ جن مقاصد کے لئے اٹھایا گیا ہے وہ شاید ہی اس قدم سے پورے ہوں۔ وزیراعظم نے8 نومبر کو کہا تھا کہ جنتا مجھے 50 دن دیں اس کے بعد سب ٹھیک ہوجائے گا۔ نوٹ بندی کے 50 دن آج پورے ہوگئے ہیں۔ ان 50 دنوں کا لیکھا جوکھا دیکھنا ضروری ہے۔ پہلے ان 50 دنوں کی کامیابیوں پر نظر ڈالتے ہیں۔ ہزاروں کروڑ روپئے کی غیر اعلانیہ آمدنی کا پتہ اب دیش کو لگ چکا ہے۔ حوالہ کاروباریوں اور ٹیکس چوروں کے لئے مشکلیں زیادہ بڑھی ہیں۔ پرانے نوٹوں کے ردی ہونے اور دہشت گردوں و نکسلیوں کی فنڈنگ پر لگام لگی ہے۔ نوٹ بندی کے بعد اکیلے چھتیس گڑھ سے نکسلیوں کے 7 ہزار کروڑ روپئے کا پتہ چلا ہے۔ مرکزی سرکار کے مطابق نوٹ بندی کے بعد سے 400 کروڑ روپے کے نقلی نوٹوں کا کاروبار بند ہوا ہے۔ دیش کیش لیس معیشت کی جانب بڑھنا شروع ہوگیا ہے۔ دوکانوں میں پی آئی او ایس مشینوں کی مانگ بڑھی ہے۔ 300فیصد نقدی بینکوں میں بڑھی ہے، بینکوں کے پاس 2.5 لاکھ کروڑ کا جمع پیسہ جو اب 7 لاکھ کروڑ سے زیادہ ہوگیا ہے، کالا دھن ،دہشت گردی اور کرپشن وہ تین نقطہ تھے جن پر 8 نومبر کی رات 8 بجے اپنی تقریر کے دوران وزیر اعظم نے کہا تھا کہ نوٹ بندی کالی کمائی پر بڑا حملہ کرے گی۔ 50 دن کے بعد بھی جنتا کو بینکوں اور اے ٹی ایم سے نقدی نہیں مل پا رہی ہے۔ کانگریس نائب صدر راہل گاندھی نے کہا کہ نوٹ بندی سے نہ کالا دھن ختم ہوا ہے اور نہ ہی کرپشن۔ پی ایم نے کہا تھا کہ 30 دسمبر تک سب ٹھیک ہوجائے گا لیکن 50 دن گزرنے کے بعد بھی حالات ٹھیک نہیں ہوئے۔ ترنمول کانگریس کی ممتا بینرجی نے کہا کہ پی ایم نے50 دن مانگے تھے کیا اب وہ استعفیٰ دیں گے؟ ان 50 دنوں میں دیش 20 سال پیچھے چلا گیا ہے۔ نوٹ بندی کے کئی سائیڈایفیکٹ ہوئے ہیں۔ راشٹریہ جنتا دل کے صدر لالو پرساد یادونے اپنے ٹوئٹر ہینڈل پر ایک ایک کر نوٹ بندی کے 16 سائڈ ایفیکٹ گناتے ہوئے لکھا نوٹ بندی سے جہاں22 کروڑ لوگوں کی نوکری چھن گئی ہے وہیں دیش میں سینکڑوں اموات ہوئی ہیں۔ وہیں دیش کی معیشت چوپٹ ہوگئی ہے۔ کاروبار ختم ہے۔ کاروباری پریشان ہیں اور کسان مزدور و غریب پریشانی میں مبتلا ہے۔ انہوں نے کہا دیش میں غیر منظم سیکٹر میں کام بند ہونے سے لاکھوں لوگوں کا روزگار خطرے میں ہے اور پیداوار ، کھپت اور سرمایہ کاری میں بھی بھاری کمی آئی ہے۔ معیشت ٹھپ ہے اور خوردہ کاروباری مرنے کے دہانے پر ہیں۔ آر جے ڈی چیف نے طنز کرتے ہوئے کہا کہ نقدی کی شکل میں استعمال ہونے والا ہر نوٹ کالا دھن نہیں ہوتا۔ زیادہ تر وہ پیسہ ہے جس پر ٹیکس دیا جا چکا ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا نوٹ کا رنگ بدلنے اور سائز بدلنے سے نہ تو کالا دھن ختم ہوگا اور نہ ہی کرپشن۔ موجودہ سرکار نے 3 کروڑ روپے کے جعلی نوٹ ختم کرنے کے لئے42 ہزار کروڑ کے نئے نوٹ چھاپ کر دیش پر خرچ لاد دیا ہے۔ انہوں نے کہا بھارت میں صرف 4 فیصدی کالا دھن نقدی میں ہے بلکہ 96 فیصدی کالے دھن کو چھپانے کے لئے نوٹ بندی کا ناٹک کیا گیا۔ جس دن سے دیش میں نوٹ بندی ہوئی ہے اسی دن سے دیش کا ہر طبقہ کسی نہ کسی طرح سے متاثر ہوا ہے۔ کسانوں کی حالت بہت باعث تشویش ہے۔ کسانوں کے آلو1 روپیہ، ٹماٹر 2 روپیہ، آنولہ 3 روپیہ فی کلو کے بھاؤ سے منڈیوں میں بیچنے کو کسان مجبور ہیں۔ اس کے چلتے کسان اپنے آلو ، پیاز کو روڈ پر پھینک رہے ہیں کیونکہ اس کی لاگت ان کون ہیں مل پا رہی ہے۔ بھارت کی معیشت 30فیصد دھیمی ہوگئی ہے۔ کاروباری طبقہ خالی پڑا ہوا ہے۔ کسان و مزدور کو روٹی کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ پورے دیش میں بے روزگاری بڑھی ہے۔ خاندان کے ساتھ راجگیری کرنے آئے بہار کے محمد نعیم کی نوٹ بندی کے بعد دہاڑی عادی رہ گئی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ نوٹ بندی کے بعد حالت یہ ہوگئی ہے کہ لیٹر دودھ کی جگہ آدھا لیٹر دودھ ہی لے رہا ہوں ۔ کھلے پیسے بہت کم بچتے ہیں۔ پہلے مہینے میں 25 دن کام ملتا تھا جو اب10 دن تک محدود ہوگیا ہے وہ بھی لوگ ادھار پر کام کرا رہے ہیں۔ سبھی یہ کہہ کر دہاڑی روک لیتے ہیں کہ پیسہ نہیں نکل پارہا ہے ، کل لینا۔ نئی دہلی علاقہ میں ایک دہاڑی کا کام کرنے والے دوسرے شخص اروند نوٹ بندی کا ذکر آتے ہیں کہتے ہیں کہ ہمارا تو اس نوٹ بندی نے سب کچھ لوٹ لیا ہے۔ یہ سمجھئے کہ بھوکے مرنے کی نوبت آگئی ہے۔ ہر دن800-1000 روپے کماتا تھا۔ مزدوری سے بیٹی کی شادی کی، بیٹا انجینئرنگ کررہا ہے ایک بیٹی بی۔ ایڈ کررہی ہے اب حالت یہ ہے بیٹی کی 10 ہزار فیس اور مکان کا 4 ہزار روپئے کرایہ دینا بھی مشکل ہے۔ پورے دن میں 200 کا بھی کام نہیں ملتا۔ شکر پور کے باشندے منک جو چائے بیچتے ہیں ،بتاتے ہیں نوٹ بندی نے ابتدائی دور میں میرا دھندہ بہت متاثر کردیا تھا حالات ابھی بھی ایسے ہی ہیں ۔ کام گھٹ کر400 روپئے یومیہ سے 150 پر آگیا ہے۔ مکان کا کرایہ دینا بھی بھاری پڑ گیا ہے۔ مشن کنج کے پاس خوانچہ لگانے والے رام پرساد پٹیل کہتے ہیں کہ نوٹ بندی کے بعد نقدی نکالنے اور کھلے پیسوں کے لئے بہت پریشان ہوں۔ نقدی نکالنے کے لئے صبح چار بجے سے قطار میں لگیں گے تو دوپہر بعد نمبر آتا ہے۔ کسی طرح ادھار لیکر یا بچوں کی گلک سے پیسے نکال کر گھر کا کام چلا رہا ہوں۔(جاری)
(انل نریندر)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں