عشرت جہاں معاملے میں گم ہوئی فائلوں کی تحقیقات

عشرت جہاں مڈ بھیڑ معاملے میں سابق وزیر داخلہ پی چدمبرم کی مشکلیں بڑھ سکتی ہیں۔ حلف نامہ بدلنے کے پیچھے اصلی اسباب کی جانچ پڑتال اور معاملے سے وابستہ فائلوں کا گم ہوجانا ایک بہت سنگین معاملہ ہے اور اس کی جانچ ہونا بھی ضروری ہے۔ یہ تحقیقات کی ذمہ داری وزارت داخلہ کے ایڈیشنل سکریٹری بی۔ کے۔ پرساد کو سونپی گئی ہے۔ پچھلے ہفتے وزیرداخلہ راجناتھ سنگھ نے لوک سبھا میں اس معاملے کی تحقیقات کرانے کا اعلان کیا تھا۔ بی ۔ کے۔ پرساد عشرت جہاں سے وابستہ دستاویزات گم ہونے کے لئے ذمہ دار افسر کی پہچان بھی کریں گے اور انہی گمشدہ دستاویزات میں حلف نامہ بدلنے جانے کے پیچھے سچائی چھپی ہوئی ہے۔ ان دستاویزات کو محفوظ رکھنے کے لئے ذمہ دار افسران کو تلاش کرنا ضروری ہے۔ اندیشہ ہے کہ ان دستاویزات کو جان بوجھ کر اور سوچی سمجھی حکمت عملی کے تحت اس لئے غائب کیا گیا تاکہ دیش کے سامنے سچائی نہ آسکے۔ان دستاویزات کاغائب ہونا اس شبے کو اور زیادہ گہرا کرنے والا ہے کہ حلف نامہ ذاتی سیاسی اغراض سے بدلا گیا۔ کسی معاملے میں حلف نامہ بدلا جانا کوئی نئی انوکھی بات نہیں ہے لیکن جب کوئی حلف نامہ دو ماہ کے اندر بدلا جائے اور وہ پہلے کے بالکل الٹ ہو تو پھر اسے ٹھیک نہیں مانا جاسکتا۔ دوسرے حلف نامے میں حقائق کمزور کئے گئے عشرت سمیت 4 لوگ 15 جون2004ء کو احمد آباد پولیس کے ساتھ مڈ بھیڑ میں مارے گئے تھے۔ راجناتھ سنگھ کے مطابق اس معاملے میں مرکزی سرکار نے پچھلے حلف نامے میں عشرت جہاں کو دہشت گرد تنظیم لشکر طیبہ کی ممبر بتایا گیا تھا لیکن دوسرے حلف نامے میں اس حقیقت کو کمزور کرنے کی کوشش کی گئی۔انہوں نے الزام لگایا تھا کہ یہ گجرات کے اس وقت کے وزیر اعلی نریندر مودی کو پھنسانے کی سازش تھی۔ پہلے حلف نامے میں اسے لشکر کا آتنکی بتایا گیا، لیکن دوسرے میں نہ صرف اس سے انکار کیا گیا بلکہ اس متعلقہ تمام معلومات بھی ہٹا لی گئیں۔ حلف نامہ بدلے جانے سے متعلق دستاویزات کا غائب ہونا اس لئے کہیں زیادہ سنگین ہے کیونکہ عشرت مڈ بھیڑ معاملے ابھی عدالت کے سامنے زیر سماعت ہے۔ عشرت جہاں مڈ بھیڑ معاملے میں حلف نامہ بدلنے کو لیکر اس وقت کے داخلہ سکریٹری کا یہ کہنا ایک بڑی سازش کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ حلف نامے میں تبدیلی کی کارروائی سے انہیں دور رکھا گیا اور دوسرا حلف نامہ خود چدمبرم نے لکھوایاتھا۔ بیشک چدمبرم بھلے ہی بڑے وکیل ہوں لیکن بطور مرکزی وزیر داخلہ ان سے یہ امید نہیں کی جاسکتی تھی کہ وہ حلف نامہ خود ہی لکھیں گے اور ادھر سابق وزیر داخلہ پی چدمبرم نے ان پر کئے جارہے حملے کے جواب میں مانا کہ اس معاملے سے وابستہ دستاویزات (حلف نامے) میں معمولی تبدیلی کی گئی تھی۔تبدیل شدہ حلف نامہ کو سابق ہوم سکریٹری جی کے پلئی نے تین بار دیکھا تھا جو اب غائب ہے۔ پی چدمبرم کا یہ بیان ایسے وقت آیا ہے جب اس معاملے سے متعلق فائلوں کے غائب ہونے کی جانچ کے لئے اعلی سطحی کمیٹی بنائی گئی ہے۔ اس پورے معاملے کی جانچ اس لئے بھی ضروری ہے تاکہ سچائی سامنے آسکے۔ اگر چدمبرم پر لگے الزامات میں ذرا بھی سچائی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وزیر داخلہ کی حیثیت سے انہوں نے وہ کام کیا جو ان سے بالکل بھی توقع نہیں تھی اور جس سے انٹرنل سکیورٹی مشینری کے ساتھ کھلواڑ ہوا۔ اس سے بڑی بدقسمتی کوئی اور نہیں ہوسکتی کہ مرکزی وزیر داخلہ کے سطح پرایسے کام کئے گئے جس سے دہشت گرد تنظیموں کے مفاد پورے ہوں۔ سیاسی نفع نقصان کے لئے دیش کی سلامتی تک سے کھلواڑ کیا گیا۔ یہ قابل قبول نہیں ہے۔ امید کی جاتی ہے کہ جانچ کمیٹی سنجیدگی سے سچائی کو سامنے لانے میں کامیاب ہوگی تاکہ دیش کو بھی پتہ چلے کہ ووٹ بینک پالیٹکس کے لئے کوئی بھی سیاسی پارٹی کس حد تک گر سکتی ہے۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟