الہ آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کے بعد شکشا متروں میں مایوسی

اترپردیش کی اکھلیش یادو سرکار کو ہائی کورٹ سے جھٹکے پر جھٹکا مل رہا ہے تو اس کے لئے اس کی غیر دور اندیشی حکمت عملی ذمہ دار ہے۔ الہ آباد ہائی کورٹ نے قریب پونے دو لاکھ ششکا متروں کے ٹیچر بنانے کے سرکار کے فیصلے کو پلٹ دیا اور کہا کہ ان کی تقرری میں طے پیمانوں پر تعمیل نہیں کی گئی ہے۔ہائی کورٹ کو یہ معاملہ اتنا ضروری لگا کہ چھٹی کے دن سنیچر کوتین نفری بنچ نے اتفاق رائے سے حکومت کے فیصلے کو پلٹتے ہوئے ساری تقرریوں کو منسوخ کردیا۔ اس فیصلے پر ریاست میں زبردست رد عمل ہونا فطری ہی تھا۔ ریاست کے الگ الگ اضلاع میں شکشا متروں کی صدمے سے موت یا خودکشی کرنے کے معاملے سامنے آرہے ہیں۔ اب تک 6 شکشا متروں کی جان جاچکی ہے۔ پوری ریاست میں جگہ جگہ ہائے توبہ مچی ہوئی ہے۔ اسکول بند کئے جارہے ہیں، ٹرینیں روکی گئیں، وہیں سنبھل سے میمورنڈم دے کر صدر اور وزیر اعظم سے خواہشی موت کی اجازت کی اپیل کی ہے۔ بریلی میں شکشا متروں نے میٹنگ کرکے کلکٹر کے دفتر کے باہر مظاہرے کے بعد ضلع مجسٹریٹ کو میمورنڈم دیا تھا اور اس میں صدر جمہوریہ کو خط بھیج کر خواہشی موت کی اجازت دینے کی درخواست کی گئی ہے۔ ان کی تعداد3400 ہے۔ فیض آباد کے آدتیہ نگر میں شکشا متروں کی میٹنگ کے دوران ایک شکشا متر کو دل کا دورہ پڑ گیا ۔ اس کو سنگین حالت میں ضلع ہسپتال میں بھرتی کرایا گیا ہے۔ شکشا متروں کی ہڑتال کے سبب سینکڑوں پرائمری اسکول بند ہیں۔ پردیش کے 1 لاکھ72 ہزار شکشا متروں کے سامنے زندگی کے گزر بسر کا مسئلہ کھڑا ہوگیا ہے۔ اس کے علاوہ زیادہ تر شکشا متروں کی عمر سرکاری نوکری پانے کی عمر سے زیادہ ہوچکی ہے لہٰذا وہ دوراہے پر کھڑے ہوگئے ہیں۔ بیشک شکشا متروں کا درد سمجھا جاسکتا ہے جس میں کچھ نے مایوسی میں خودکشی جیسا ہولناک قدم بھی اٹھایا ہے لیکن اس پورے معاملے میں اترپردیش سرکار کا رول زیادہ لاپرواہی والا ہے۔ مستقل اور پڑھے لکھے ٹیچروں کی تقرری کے بجائے صوبے کی ابتدائی تعلیم قریب ڈیڑھ دہائی سے جس طرح سے شکشا متروں کے حوالے کردی گئی ہے اول تو یہ بات بہت حیران کرنے والی ہے۔ جس طرح اترپردیش کی حکومتوں نے ان شکشا متروں کو مستقل ٹیچر بنانے کی شروعات کردی تھی وہ بھی قاعدے قانون کو طاق پر رکھ کر۔ اس سے ٹیچر بننے کی لائن میں لگے بے روزگار نوجوانوں کو بڑا دھکا پہنچا ہے لیکن انہیں اس کے لئے ہائی کورٹ کو قصوروار ماننے کے بجائے سرکار کی غیر دوراندیشی والی حکمت عملی کو قصوروار مانا جانا چاہئے۔ ان تقرریوں میں مایاوتی سرکار کے وقت میں کی گئی تقرریاں بھی شامل ہیں لہٰذا مایاوتی بھی کٹہرے میں ہیں۔ اس سے پہلے ہائی کورٹ نے ساڑھے 38 ہزار سپاہیوں کی تقرریاں بھی منسوخ کردی تھیں۔ نوئیڈا سمیت تین اتھارٹیوں کے چیف انجینئر یادو سنگھ کا اقتصادی گول مال جب سننے میں آیا تو پوری سرکار اس کے ساتھ کھڑی ہوگئی۔ اس کی سی بی آئی جانچ کی مخالفت کرنے کے لئے سپریم کورٹ تک پہنچ گئی۔ سپریم کورٹ نے سرکار کو پھٹکار لگائی تھی۔ گزشتہ صدی کی آٹھویں دہائی میں پرائمری تعلیم کے سینٹرلائزیشن اور مقامی نوجوانوں کو روزگار دینے کے لئے شکشا متروں کی جو شروعات کی گئی تھی وہ ایک تجربہ کے طور پر تو ٹھیک مانا جاسکتا ہے لیکن جب ریاستوں نے اسے بھی ٹیچروں کی بھرتی کا طریقہ مان لیا ۔ ایک کے بعد ایک ریاست میں پرائمری ٹیچر پرائمری تعلیم ٹھیکے پر مقرر کردہ ٹیچروں کے حوالے کردی گئی۔ بہتر ہو کہ الہ آباد ہائی کورٹ کا یہ فیصلہ دوسری ریاستوں میں بھی تعلیمی نظام میں پیدا اس خامی کو دور کرنے کا موقعہ بنے گا۔ اس سے ہمارا تعلیم نظام بھی بہتر ہوگا۔ جب ٹیچروں کی کاپیاں اور صلاحیت اور ان کی ٹریننگ کو ترجیح دی جائے گی لیکن فی الحال تو اترپردیش کی اکھلیش سرکار اس فیصلے سے سکتے میں آگئی ہے۔ ممکن ہے سرکار الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرے اور اس فیصلے پر اسٹے کروادے۔ تب تک اسے اس نئے مسئلے سے کیسے نمٹنا ہے اس پر سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟