اب ٹیم انڈیا میں بدلے گا 65 برس پرانا پلاننگ کمیشن!

کانگریس حکمراں ریاستوں کے رسمی احتجاج کے باوجود نریندر مودی حکومت نے پلاننگ کمیشن کا ڈھانچہ بدلنے کی سمت میں فیصلہ کرلیا ہے۔ پلاننگ کمیشن اپنی عمر کا 65 واں سال شاید پار نہ کرپائے۔ پہلے وزرائے اعلی کی میٹنگ میں پھر اخباری کانفرنس میں وزیر مالیات ارون جیٹلی نے پلاننگ کمیشن کے بے جواز کو جس طرح سے پیش کیا ہے اس سے شاید ہی کوئی متفق ہو۔ قلیل المدتی ترقی کے لئے پلان بنانے کیلئے اور ریاستوں و مرکز کے درمیان بہتر تال میل قائم کرنے کیلئے ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے س ادارے کی تشکیل کی تھی۔ اس نے ابتدا میں کچھ دہائیوں تک بیشک ترقی کے کام میں اہم کردار نبھایا تھا لیکن یوپی اے سرکار کے پچھلے10 سال میں اسے مرکز کی ایک ایجنسی کی شکل میں کام کرتے ہوئے زیادہ دیکھا گیا جہاں مرکزی حکومت نے ریاستی حکومتوں سے امتیاز برتنا شروع کردیا تھا۔ ریاستوں کا پیسہ ریاستوں کی ترقی کے لئے دیتے ہوئے بھی یہ پلاننگ کمیشن ایسے پیش آتا تھا جیسے کوئی احسان کررہا ہو۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے پلاننگ کمیشن کو ٹیم انڈیا کی طرح بدلنے کی خانہ پوری کردی ہے اور اس کا سبھی وزرائے اعلی نے خیر مقدم کیا ہے۔ وزرائے اعلی کی عام رائے تھی کہ پلاننگ کمیشن کو ایسے ادارے کی شکل دی جائے جس میں ریاستوں کی مناسب سانجھے داری ہو اور ان کی ضرورتیں ادارے کے فیصلوں میں جھلکیں۔ موجودہ پلاننگ کمیشن کے ڈھانچے کی اسکیم ہم نے 50کی دہائی میں اس وقت سوویت روس میں رائج سسٹم سے لیا تھا جو کہ دہلی کی ہدایت اور کنٹرول سسٹم پر منحصر تھی۔ اس سسٹم کی سب سے بڑی جو خامیاں تھیں ان میں ریاستوں کو اپنا موقف رکھنے کی گنجائش اور ان کی خاص ضرورتوں پر توجہ دینے کی گنجائش انتہائی محدود تھی۔ 90 کی دہائی میں اقتصادی اصلاحات کے دور کے بعد دیش کی وقت کے ساتھ بڑھتی ضروریات سے قدم سے قدم ملا کر چلنے میں پلاننگ کمیشن مسلسل ناکامی کی طرف مائل رہا۔ 10 برسوں تک اس پلاننگ کمیشن کے چیئرمین رہ چکے سابق وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ نے بھی رائے دی تھی کہ بازار پر انحصار اور آج کی اصلاحاتی اور کھلی معیشت کے ساتھ ساتھ تال میل بٹھانے کیلئے پلاننگ کمیشن کو اپنے طرز فکر میں بڑی تبدیلی کی ضرورت ہے۔ حالیہ برسوں میں گجرات، مہاراشٹر، بہار ، ہریانہ یا کچھ دیگر ریاستوں نے توقع سے بہتر اقتصادی ترقی حاصل کی ہے۔ وہ تو مرکزیت کے ساتھ اور پلاننگ کمیشن کی وجہ سے نہیں بلکہ ان ریاستوں کی حکومتوں کی کوشش کے بوتے پر ممکن ہوئی ہے کیونکہ وزیراعلی رہتے ہوئے خود نریندر مودی نے پلاننگ کمیشن کے جانبدارانہ رویئے کو قریب سے محسوس کیا تھا۔ لہٰذا اس کے موجودہ خاکے میں تبدیلی لانے کے ان کا عزم جائز ہو سکتا ہے۔ پلاننگ کمیشن کی جگہ نئے اداروں میں ریاستوں کی سانجھے داری زیادہ ہوگی۔ مرکز کے ساتھ ریاستوں کی حکومتوں کو بھی پلان بنانے میں حصہ داری کا موقعہ ملے گا۔ مالی معاملوں میں بھی ریاستوں کے نظریئے اور ضرورتوں کا خیال رکھا جائے گا۔ نئے ادارے کا ڈھانچہ ایسا ہوگا جس میں مرکز، ریاستیں اور کمیشن ایک ٹیم کی شکل میں کام کریں گی۔ کوئی بھی تبدیلی بہتر نتیجے لانے کے لئے ہونی چاہئے کسی کو کمتر بتانے کے لئے نہیں۔ پلاننگ کمیشن کی جگہ کوئی بھی ادارہ بنے وہ مستقبل میں آنکھ بند کر کام نہیں ہوپائے گا۔
(انل نریندر)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

’’مجھے تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا۔۔ میری کشتی وہاں ڈوبی جہاں پانی بہت کم تھا‘‘

’وائف سواپنگ‘ یعنی بیویوں کی ادلہ بدلی کامقدمہ

آخر کتنے دن کی جنگ لڑ سکتی ہے ہماری فوج؟